کالم

آگے آگے دےکھئے ہوتا ہے کےا۔۔۔۔؟

8فروری2024ءملکی تارےخ کے بارہوےں عام انتخابات تمام تر خدشات و تحفظات کے باوجود انتہائی پر امن ماحول مےں انجام پا گئے ۔ مبصرےن کے مطابق ٹرن آﺅٹ بھی پچاس فےصد کے قرےب رہا ۔انتخابات کے نتائج حےران کن رہے،سب مفروضے ،اندازے ،تبصرے نتائج سننے پر دم توڑتے نظر آئے ۔ اس الےکشن مےں بہت سے علاقوں کے بڑے بڑے برج بھی الٹ گئے اور نامور سےاستدانوں کو آزاد امےدواروں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ مجموعی طور پر عوام کا رجحان عمران خان کو مظلوم سمجھ کر ان سے ہمدردی کا رہا اور حتمی سرکاری نتائج مےں قومی اسمبلی کی نشستوں پر تحرےک انصاف کے حماےت ےافتہ امےدوار وں نے بڑی کامےابی حاصل کی ۔ن لےگ دوسرے اور پےپلز پارٹی تےسرے نمبر پر رہے ۔نتائج مےں تاخےر سے بہت سے شکوک و شبہات نے جنم لےا اور الےکشن کی شفافےت پر سوال اٹھا دئےے ۔سےکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونےو گرےسترس نے پاکستان مےں الےکشن کے روز موبائل سروس کی معطلی اور پر تشدد واقعات پر تشوےش کا اظہار کےا۔امرےکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مےتھےو ملر نے ان عام انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کے الزاما ت کی تحقےقات کا مطالبہ کےا ۔ برطانوی وزےر خارجہ ڈےوڈ کےمرون نے بھی پاکستان مےں انتخابات کی شفافےت پر خدشات کا اظہار کےا ۔ فری اےنڈ فئےر الےکشن نےٹ ورک (فافن) نے کہا کہ عام انتخابات کے ابتدائی نتائج کی تےاری اور اعلان مےں تاخےر نے انتخابات کے منظم انعقاد کو گہنا دےا جس سے انتخابی نتائج کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہےں ،فافن کی طرف سے انتخابات کے متعلق ابتدائی مشاہدہ رپورٹ مےں کہا گےا کہ انتخابات مےں شفافےت پولنگ اسٹےشنز تک محدود رہی تاہم رےٹرننگ افسر (آر او) کے دفتر مےں شفافےت پر سمجھوتا کےا گےا ۔اس الےکشن مےں کچھ نےا بھی دےکھنے کو ملا ۔امےر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق نے الےکشن مےں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دےا ۔اگرچہ جماعت نے ان کا استعفیٰ قبول نہےں کےا اور ان کی قےادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کےا ۔خواجہ سعد رفےق نے اپنی شکست تسلےم کرتے ہوئے اپنے جےتنے والے مخالف امےدوار لطےف کھوسہ کو مبارک باد دی ،حافظ نعےم الرحمن،نثار چےمہ سمےت اےسے رہنما بھی سامنے آئے جنہوں نے واضح کےا کہ انہےں ہاری ہوئی سےٹوں پر جےتا ہوا نہ ظاہر کےا جائے ۔اعظم خان ہوتی نے اپنی جماعت کی نائب صدارت سے استعفیٰ دے دےا ،استحکام پارٹی کے سربراہ جہانگےر ترےن نے جماعت کی صدارت چھوڑنے اور سےاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دےا ۔پھر الےکشن فارم 45اور 47کے فرق ظاہر کرتے ہوئے دھاندلی کا شور برپا ہوا ۔اسی دوران لےاقت چٹھہ کمشنر راولپنڈی نے اےک پنڈورا باکس کھول دےا جس کے مطابق ان کا ضمےر اچانک انگڑائی لےکر بےدار ہوا ،فجر سے پہلے خود کشی کا سوچا ،پھر خےال آےا کہ حرام موت مرنے کا کےا فائدہ قوم کو سچ سے آگاہی دےنی چاہےے ۔کمشنر صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے راولپنڈی ڈوےژن مےں بدترےن دھاندلی کرائی اور الےکشن کے نتائج اس طرح تبدےل کےے کہ 70ہزار سے جےتنے والوں کو 50،50ہزار سے ہروا دےا ۔کمشنر صاحب کے اس بےان نے کئی طرح کے سوال اٹھا دئےے ،ےہ سوال بھی گردش مےں رہا کہ کمشنر نے اتنی جرا¿ت کا مظاہرہ کےوں ،کےسے اور کس کے اےما پر کےا؟لےاقت چٹھہ کے اس بےان کے بعد اتنا ضرور ہوا کہ دونوں بڑی سےاسی جماعتےں جو حکومت بنانے سے بظاہر گرےزاں دکھائی دے رہی تھےں حکومت بنانے پر فوراً متفق و آمادہ ہو گئےں ۔کمشنر راولپنڈی لےاقت چٹھہ بعد ازاں اپنے اعترافی بےان سے منحرف ہو گئے اور الےکشن کمےشن کی تحقےقاتی کمےٹی کو جمع کرائے گئے بےان مےں کہا کہ مےں نے دھاندلی کا بےان پی ٹی آئی کے بہکانے پر دےا ،شرمندہ ہوں قوم سے معافی مانگتا ہوں ۔9مئی واقعات مےں مفرور اےک سےاسی رہنما سے مےرے اچھے تعلقات تھے ،مےں 11 فروری کو لاہور گےا اور اس رہنما سے ملاقات کی ۔اسی رہنما نے مجھے الےکشن دھاندلی زدہ ثابت کرنے کے منصوبے پر کام کرنے کا کہا ،مےں منصوبے کا حصہ بننے پر شرمندہ ہوں ۔لےاقت چٹھہ کی پہلی کانفرنس کی بھی باقاعدہ انکوائری ہونی چاہےے اور معافی اور شرمندگی والے بےان کی بھی ۔اگر ذمہ دارانہ پوسٹ پر براجمان اعلیٰ تعلےم ےافتہ بھی آئےن و قانون کا مذاق اڑائےں تو ان کو کٹہرے مےں ضرور لانا چاہےے ۔قانون موجود ہے کہ نوکر شاہی کی تقرری باقاعدہ اےک نظام کے تحت ہو اور انہےں اپنی پروموشن اور ٹرانسفر کا خوف سوار نہ ہو ۔راقم کو مذکورہ کمشنر کے ضمےر جاگنے اور پھر معذرت و شرمندگی کے بےانےے کے حوالے سے بار بار ےہ خےال آتا رہا کہ اگر حکمران بھی سول افسران کو ناجائز حکم دےں تو انہےں قائد کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے پولےٹےکل ماسٹر بننے سے اجتناب کرنا چاہےے ۔سول افسران کےلئے ہی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا واضع پےغام موجود ہے کہ ”آپ رےاست کے ملازم ہےں اور عوام کے خادم ہےں ۔آپ کو پولےٹےکل ماسٹر نہےں بننا ۔من پسند پوسٹنگ اور جلد پروموشن کےلئے بھی سرکاری افسران قائد کے وضع کردہ اصول و ضوابط کی دھجےاں اڑا دےتے ہےں ۔پاکستان سول سروس نے بڑے بڑے گوہر ناےاب پےدا کےے ۔جس وقت پاکستان معرض وجود مےں آےا تو اس وقت انڈےن سول سروس (ics)کے 770افسران مےں سے 73 مسلمان تھے ۔ماسوائے تےن کے تمام سول افسران نے پاکستان آنے کو ترجےح دی ۔اس ملک کی باگ ڈور بنانے والے سرکاری افسران تھے جنہوں نے بقول قدرت اﷲ شہاب کانٹوں سے کاغذوں کو نتھی کرنے کا کام لےا ۔اب اےسے افسران کہاں چلے گئے ہےں ۔قلم خےالات کی روانی مےں بہہ گےا ۔پاکستان کے عوام نے 8فروری کے انتخابات مےں سےاسی جماعتوں کو منقسم مےنڈےٹ دےکر بہت بڑے امتحان مےں ڈال دےا ۔کسی بھی جماعت کو اتنی اکثرےت حاصل نہےں تھی کہ وفاق مےں تنہا حکومت بنا سکتی ۔چونکہ ہمارے ہاں ملکی سےاست اصولوں کی بجائے زےادہ تر خواہش اقتدار کے تابع ہے،اسی لئے ان دو بڑی پار ٹےوں مےں دو ہفتہ سے بھی زائد وقت گزرنے کے بعد بھی حکومت سازی کے معاملات طے نہےں ہوئے ۔قابل افسوس حقےقت ےہی رہی کہ ان دونوں سےاسی پارٹےوں کا فوکس صرف اعلیٰ حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ پر رہا ۔کےا ہی بہتر ہوتا اگر ےہ دونوں سےاسی جماعتےں اس پر فوکس کرتےں کہ پاکستان کو موجودہ سیاسی اور معاشی بحران سے کس طرح نکالنا ہے ۔بالآخر (ن) لےگ اور پےپلز پارٹی کے درمےان مخلوط حکومت بنانے کا معاہدہ طے پا گےا ۔فےصلہ مےں آصف علی زرداری صدر ،مےاں شہباز شرےف وزےر اعظم جبکہ سپےکر قومی اسمبلی ن لےگ کا ہو گا ،چئےرمےن سےنےٹ کا تعلق پےپلز پارٹی سے ہو گا ۔دو گورنر ن لےگ اور دو گورنر کا تعلق پےپلز پارٹی سے ہو گا ۔پےپلز پارٹی وفاقی کابےنہ مےں شامل نہےں ہو گی لےکن ن لےگ کی حکومت کی قومی اسمبلی مےں حماےت جاری رکھے گی جس کا مقصد سنگےن معاشی بحران کے شکار پاکستان مےں مشکل فےصلوں اور حکومتی ناکامےوں کا ملبہ ن لےگ پر ڈالنا ہے ۔متنازع الےکشن کے بعد ےہ دو بڑی سےاسی جماعتےں حکومتےں بنا رہی ہےں اس مےں سب سے زےادہ سےاسی خطرات ن لےگ کےلئے ہےں ۔ےہ ن لےگ کا بہت بڑا اور مشکل امتحان ہے ۔بادی¿ النظر مےں کسی بھی سےاسی جماعت مےں ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد مےں بڑے فےصلے کرنے کی سکت موجود نہےں ۔اس اتحادی حکومت مےں آنے والے دنوں مےں بے شمار چےلنجز بھی نماےاں ہوں گے جن مےں معاشی معاملات ،آئی اےم اےف کے ساتھ مذاکرات ،مہنگائی پر قابو پانا ،ملک مےں سرماےہ کاری لانا ،زرعی اصلاحات ،تعلےم اور صحت کے شعبے مےں ترقےاتی کام ،انفراسٹرکچر کی بہتری تا کہ کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھےں ۔تعلےمی مےدان مےں آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دےنے کی ضرورت ہے ۔مارچ کے اختتام تک آئی اےم اےف سے موجودہ معاہدہ ختم ہو جائے گا ،عوام پر ٹےکسوں کا مزےد بوجھ بڑھے گا ۔اس سے بچنے کی اےک ہی صورت ہے کہ پاکستان مےں اشرافےہ کو دی جانے والی اٹھارہ ارب ڈالر کی مراعات کا خاتمہ کر دےا جائے اور غےر ضروری حکومتی اخراجات مےں کمی کی جائے وگرنہ ن لےگ کی ےہ حکومت آخری حکومت ہو گی ۔پاکستان جےسے اےک غرےب اور مقروض ملک پر رےاست کے 48ارب کا کثےر سرماےہ انتخابات پر صرف ہوا ہے جبکہ مجموعی اخرجات کا تخمےنہ 152ارب روپے ہے جس کا ملک بار بار متحمل نہےں ہو سکتا ۔
آگے آگے دےکھےے ہوتا ہے کےا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri