یہ تماشا اور حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آئینی ترامیم راتوں رات منظور ہو جاتی ہیں اور معزز ممبران بغیر پڑھے منظور ہے منظور ہے اور قبول قبول کہ دیتے ہیں اور محض چند منٹوں میں پارلیمنٹ سے منظوری ہوجاتی ہے، اور اسی رات صبح صبح صدرِ مملکت کے دستخط بھی ثبت ہو جاتے ہیں!بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گویا قانون سازی کا کوئی تیز رفتار مقابلہ ہو اور گنیز بک آف ورلڈ میں نام رقم کرنے کا جنون ہو۔ حکومت کی جلد بازی میں اٹھائے اس اقدام کو دیکھ کر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر عوام کے مسائل حل کرنے میں بھی ایسی ہی تیز رفتاری دکھائی جاتی، تو آج ہم ترقی کی دوڑ میں کہیں اور کھڑے ہوتے اور یوگنڈا سے بہت آگے نکل چکے ہوتے۔آئینی ترمیم کا یہ “فاسٹ ٹریک”پارلیمانی عمل اور عوامی رائے کو کچلنے کی بہترین مثال ہے۔ نہ کوئی عوامی مباحثہ ہوا، نہ کوئی علمی گفتگو۔ پارلیمنٹ کے معزز اراکین بھی محض دستخط کنندگان کے روپ میں نظر آئے۔ کوئی انہیں ترمیم کی باریکیوں سے آگاہ کرے یا نہ کرے، ان کا “ ہاں” یا “ناں”کہنا طے شدہ تھا۔ عوام کے یہ نمائندے، جنہیں خود قانون کی موشگافیوں کا علم کم ہی ہوتا ہے، کس طرح ایک آئینی ترمیم کی اثرات کو سمجھ سکتے ہیں اور یوں اس کے نتیجے میں بہت تضادات سامنے آئیں گے، یہ عدالت کے اندر عدالت کا بہترین تجربہ ہے؟ حکومتی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ کو“قابو”میں لایا گیا ہے۔ ججوں کی تقرری اور برطرفی وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کی مرضی سے طے پائے گی اور یوں پارلیمانی بالادستی قائم ہوگی۔ اب کوئی سو موٹو نوٹس نہیں لیا جائے گااورکوئی عدالتی حکم نامہ حکومتی “مرضی”کےخلاف نہیں جاسکے گا اور یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس سے سیاسی استحکام آئے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی فلاح کے نام پر ہونے والی اس ترمیم میں عوام کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہمارے نظام نے عوام کو نظر انداز کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہوبلکہ عدلیہ بھی خود سیاست کے کھیل میں شامل حال رہی ہے، اب ایک نئے شکنجے میں ہے۔ مگر اصل کھیل تو حکومت اور اس کے اتحادیوں کا ہے، جنہوں نے اس ترمیم کے ذریعے اپنے مفادات کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے اور اب چین ہی چین ہے ۔اس قانون سازی کے دوران مذہبی سیاست دانوں کی دلچسپی بھی دیدنی ہے۔ مولانا صاحب، جنہیں سٹیٹس کو کی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے میں مہارت حاصل ہے، انہوں نے اپنے گھر کو سیاست کا مرکز بنا کر خوب کھیل کھیلا اور اس ترمیم کی حمایت میں اپنے مخصوص طریقوں سے“سود کے خاتمے” کا وعدہ کر لیا بلکہ ان کے ان کے حامی تہ کہ رہے ہیں کہ بس سود ختم شد۔ مگر یہ سب کچھ عوام بے چاروں کے جذبات سے کھیلنا اور“چمک اور مفادات”کی سیاست کا حصہ ہے، جو عوامی فلاح اور سودی خاتمے کے نام پر روا رکھاجاتا ہے۔اس آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والے تضادات نے ملکی سیاست میں ایک نئی بے چینی اور افراتفری پیدا کر دی ہے۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس ترمیم سے ملک میں استحکام آئے گا، لیکن حقیقت میں یہ تضادات اور بھی الجھنیں پیدا کر گئے ہیں۔ مختلف اداروں کی جانب سے آئین کی تشریح اور اس پر مختلف موقف نے ایک پیچیدہ صورتحال کو جنم دیا ہے۔ان تضادات کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان اختیارات پر اختلافات نے ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی پیدا کر دی ہے، جس سے آئینی بحران کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ عوام کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے، کیونکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ آئین کو ذاتی مفادات کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ان تضادات کو جلد حل نہ کیا گیا تو ملک میں سیاسی عدم استحکام اور حکومتی کمزوری مزید بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں عوامی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گا۔اس ترمیم کی جلد بازی پاس کرنا اور پارلیمنٹ سے پاس کرانے سے پہلے عوام سے خفیہ رکھنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف حکومتی مفادات کا کھیل ہے۔ عوامی استحصال، طاقتوروں کا تحفظ اور عدالتوں کو کنٹرول میں رکھنا اس ترمیم کا اصل مقصد ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انصاف کا قتل اور عوام کی امیدوں کا خون جاری رہے گا۔اب وقت آ گیا ہے کہ عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، اس نظام کے خلاف کوئی نیا راستہ اپنائیں۔ جو نظام صرف طاقتوروں کے فائدے کےلئے استعمال ہوتا ہے، اس میں تبدیلی عوامی شعور سے ہی ممکن ہے۔