Site icon Daily Pakistan

آرمی چیف کی تعیناتی اور حکومت کا موقف

idaria

پاکستان کی تاریخ میں عمران خان واحد لیڈر ہیں جنہوں نے ملکی ایک اہم تعیناتی کو متنازعہ بناکر رکھ دیا ہے اور ایک اہم قومی ادارے کو باربار گلی ، محلے ،چوراہوں میں ڈسکس کرکے اس کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کی حالانکہ وہ خود ساڑھے تین سال تک اسی اہم ادارے سے گارڈ آف آنر لیتے رہے ہیںمگر حکومت نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی انشاءاللہ میرٹ کے مطابق عمل میں لائی جائے گی ، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ 18 یا 19 نومبر کے بعد ہی آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مشاورت ہوگی، سپہ سالار کی تعیناتی کے لئے مسلم لیگ ن کا کوئی فیورٹ نام نہیں ہے۔پارلیمنٹ ہاو¿س کے باہر میں میڈیا سے گفتگو میں خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ کیا سابق صدر آصف علی زرداری اور شہباز شریف کے درمیان آرمی چیف کے نام پر ڈیڈ لاک ہے ؟ جس کا جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ابھی آرمی چیف کے نام کے حوالے سے مشاورت ہی نہیں ہوئی تو ڈیڈ لاک کیسے ہوگا؟ 18 یا 19 نومبر کے بعد ہی آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے مشاورت ہوگی، جو نام فوج بھیجے گی اسی پر ہی مشاورت ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک فوج نے آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے نام نہیں بھیجا، عمران خان کے حالیہ بیانات پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے، عمران خان ذاتی مفاد کے لئے قومی مفاد سے کھیل رہے ہیں۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ عمران خان الزامات لگا کر ہمارے بین الاقوامی تعلقات کو خراب کر رہے ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین کا اپنے ذاتی مفاد کے لئے ملکی سالمیت اور وقار سے کھیلنا جرم ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے سڑکوں پر سیاسی تماشے چل رہے ہیں مجبورا ان کا جواب دینا پڑتا ہے، اس وقت ہمارا نظام نہیں چل رہا، اہم تعیناتی کے بارے میں ہر طرف سے غیرضروری سیاست کی جارہی ہے، عمران خان کی سیاست شروع سے لے کر آج تک ایک تعیناتی کے گرد گھومتی ہے، اتحادیوں اوراپوزیشن کو اس ایشوکومتنازع نہیں بنانا چاہیے،پاکستان تحریک انصاف انصاف کے سربراہ حصول اقتدار کی لالچ میں اس قدر عجلت دکھارہے ہیں کہ اپنے سوا انہیں ہر وہ بندہ غدار نظر آتا ہیں جو ان کے غیر آئینی اقدامات کی مخالفت کرتا ہے ، پارٹی کے اندر جن رہنماو¿ں نے اپنے ضمیر کے مطابق بیانات دیئے اور عمران خان کو فوج ، عدالتوں اور دیگر قومی اداروں کے خلاف بیان بازی سے روکنے کی کوشش کی ، ان کی تمام تر قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ، اقتدار سے فراغت کے بعد عمران خان مسلسل افواج پاکستان ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو متنازعہ بنانے میں مصروف ہے ، انہوں نے افواج پاکستان کے سربراہان کیلئے میر جعفر اور میر صادق کے القابات دیئے ، کبھی انہوں مسٹر ایکس کبھی مسٹر وائی کہااور ان الزامات کے جواب میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سربراہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرکے حقائق بتانے پڑے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ عمران خان اپنے سارے مخالفین کو جیلوں میں بند کرنے اور غیر آئینی اقدامات کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے فوج کی مدد مانگتے رہے مگر فوج نے ان پر واضح کیا کہ یہ ادارہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہیں کرے گااور فوج کا سیاست سے لینا دینا کچھ نہیں ، یہی بات کہنا افواج کا جرم بن گیا اور ایسا شخص جو چار سال تک پاکستان کا وزیر اعظم رہا ،اپنے ہی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا پھررہا ہے ، گزشتہ روز موصوف نے ایک اور ارشاد فرمایا ہے کہ نواز شریف جب آرمی چیف لگائے گا تو اس سے کہے گا کہ پہلے میرے کیسز ختم کرو، عمران خان صاحب سے یہ سوال پوچھنا ہمارا حق ہے کہ کیا اپنے دور اقتدار میں وہ ان اداروں کو انہی مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں اور کیا فوج کے سربراہ کے کہنے پر آزاد عدلیہ کیس ختم کرے گی ، انہوں نے اپنے اس بیان کے ذریعے ملک کے دو اہم اداروں عدلیہ اور افواج پاکستان پر ایک بار پھر الزام تراشی کرنے کی کوشش کی ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں عدلیہ آزاد نہیں ، کیا وہ آزادانہ فیصلے نہیں کررہی ہے ، انہی عدالتوں نے عمران خان کو ریلیف دیا اور کئی سنگین کیسز میں ان کی ضمانتیں لیں ، انہوں نے جلسہ عام میں کھڑے ہوکر ایک معزز خاتون جج کو دھمکیاں دیں ، اس کے باوجود ان کے ساتھ رعایت برتی گئی ، انہیں گرفتار نہیں کیا گیا اور ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کو کنفرم کردیا گیا ، عمران خان کے ان رویوں نے ان کے اندرکے آمرانہ پن کو بے نقاب کردیا ہے ، دراصل وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں پر فرد واحد کی حکمرانی ہو اور اس کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ قانون کا درجہ اختیار کردے ، وہ چاہتے ہیں کہ فوج ، عدلیہ ، الیکشن کمیشن اور دیگر قومی ادارے ان کے اشاروں پر ناچتے رہیں اور ان کی ہر آئینی اور غیر آئینی بات کو حکم سمجھ کر تسلیم کرتے رہیںمگر اس بات کی نہ تو قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی آئین میں کوئی ایسی شق موجود ہے مگر ان کے اس رویئے نے ان کی تمام خواہشات کو عوام کے سامنے بے نقاب کرڈالا ہے ، پاکستان ایک آزاد جمہوری مملکت ہے جہاں پر تمام ادارے اپنی آئینی حدود وقیود میں رہتے ہوئے کام کررہے ہیں مگر عمران خان اپنی خواہشات کے مطابق اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں جو شاید ممکن نہ ہو کیونکہ ماضی میں سید یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف ، نواز شریف،بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹوجیسے حکمران پاکستان کی عدالتوں میں پیشیاں بھگتے رہے ہیں اور حقوق تحفظ کیلئے قانونی جنگ لڑتے رہے ہیں، یہ حکمران بھی تمام معاملات سے آگاہ تھے مگر انہوں نے کبھی بھی اہم قومی رازوں کو عوامی جلسوں میں بے نقاب نہیں کیا ، اس لئے عمران خان کو نہ صرف سیاسی تربیت کی ضرورت ہے بلکہ انتظامی امور کی تربیت کی بھی ضرورت ہے جو ملک کیلئے از حد ضرور ہے ۔
سپہ سالار کا دورہ کاکول
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی دوروں کے سلسلے میں اپنی مادر علمی پی ایم اے کاکول کا دورہ کیا اور وہاں زیر تربیت افسران کو ہدایت کی کہ اس ملک کی سلامتی اور دفاع کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے تاکہ ضرورت پڑنے پر دشمن پر کاری ضرب لگائے جاسکے ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیڈٹس پیشہ ورانہ مہارت کے حصول میں اپنی توانائیاں صرف کریں کیا۔ تفصیلات پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کاکول پہنچنے پر کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ان کا استقبال کیا۔اس موقع پر آرمی چیف نے یادگار شہداپر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے پی ایم اے میں جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فوجی ٹریننگ کے حوالے سے پی ایم اے کے اعلی معیار اور مستقبل کیلئے تیار کی جانے والی لیڈر شپ کی تیاری کیلئے ملٹری اکیڈمی کے کردار کو سراہا۔ ان کا کہنا تھاکہ کیڈٹس پیشہ ورانہ مہارت کے حصول میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔اس موقع پر انہوں نے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران سمیت جوانوں سے بات چیت کرتے ہوئے ملک و قوم کی خاطر دی جانے والی بے مثال قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا۔اس سے قبل بلوچ رجمنٹ پہنچنے پر چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔چیف آف آرمی سٹاف نے ایک شاندار کیریئر گزارا ہے اور اپنی مدت عہدہ کے دوران انہوں نے پاک چین ، سعودی عرب، یواے ای ، ترکی اور یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتر ی اور بحالی کیلئے اہم کردار ادا کیا اور خاص طور پر فٹیف سے نکلوانے کیلئے جو جہدوجہد کی اسے سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔

Exit mobile version