آوارہ کتوں نے سندھ کے بعد پنجاب میں بھی ات مچارکھی ہے اور انکاآسان شکار وہ غریب لوگ ہیں جو سائیکل بھی نہیں خرید سکتے، کچھ عرصہ پہلے سندھ سے ایسی خبریں تواتر سے آتی تھی کہ فلاں شہر میں اتنے افراد کو آوارہ کتوں نے کاٹ لیااب اسی طرح کی خبریں پنجاب سے آنا شروع ہوچکی ہیں بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے آوارہ کتوں نے پنجاب کا رخ کرلیا ہے شائد اسی لیے راولپنڈی میں ایک ہی دن میں 6افراد کو کتوں نے کاٹ لیا کتوں کے کاٹنے کے بعداسکی دوائی بھی نہیں ملتی اور غریب لوگ دیسی علاج اور ٹوٹکے کرکے وقت گذارلیتے ہیں۔ لاہور میں بھی آوارہ کتوں کی کثرت ہے لیکن اس طرف کسی کا بھی دھیان نہیں ہے پہلے کبھی ہماری کارپوریشنوں والے آوارہ کتوں کو گولیاں دیتے ہیں جن کی وجہ سے آوارہ کتوں کی تعداد کسی حد تک کم تھی لیکن جب سے کمیٹی والے مال پانی اکٹھا کرنے میں مصروف ہوئے ہیں تب سے ہر چیز آوارہ ہی ہو چکی ہے ہماری گلیاں اور بازار وں پر بھی آوارہ لوگ قابض ہو چکے ہیں جو ہر دونمبر اشیاءکھلے عام فروخت کرنے میں مصروف ہیں اور تو اور ایک چھوٹے سے درجے والا انسپکٹر بھی بازاروں میں اپنی مرضی سے تھڑے اور فٹ پاتھوں پر قبضے کرواتا ہے اب تو ان قبضہ گروپوں سے بھی کیا گلاشکوہ اس وقت پورے ملک پر چند لوگ قابض ہیں جنہوں نے نیچے قبضہ گروپوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے شائد اسی لیے ہم ہر کام میں دنیا کے آخری نمبروں پر ہیں اور ہمارے اداروں کا تو کوئی نمبر ہی نہیں رہا۔ ہاں مجھے یاد آیا کہ ہم ابھی کچھ دنوں سے دنیا کو مات دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور بڑی کوششوں سے پہلا نمبر حاصل کیا ہے جس میں
ہمارا پہلا نمبر آیا ہے اسکا تعلق ہماری صحت اور زندگی سے بڑا گہرا ہے اور یہاں تک پہنچنے میں بلاشبہ ہمارا اپنا کردار ،ہمارے اداروں کا کام اور ہماری حکومت کی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہے، جس کام میں ہم پہلے نمبر پر آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی سے پیار ہے اور نہ ہی ہمیں کسی اور کا خیال ہے بلکہ ان اداروں کا بھی بیڑہ غرق ہوگیا ہے جنہوں نے ہمیں شعور ،آگاہی اور حکمت عملی دینا ہوتی ہے ان اداروں میں قبضہ مافیا بیٹھا ہوا ہے اور انکی سرپرستیوں میں وہاں کے ملازمین کی ترقیوں کا سلسلہ کئی کئی سالوں سے رکا ہوا ہے جو ان اداروں کے سربراہ ہیں وہی اداروں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان اداروں میں کام کرنےوالے بے یقینی کا شکار ہیں رہی بات حکومت کی جسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے اگر پرواہ ہے تو اپنے بندوں کو کہیں نہ کہیں لگوانے کی فکر ہے جبکہ صوبائی وزیر تعلیم نظام کی تبدیلی کی بجائے اساتذہ کو ہی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وسیع تعداد میں یہاں بھی اپنے بندوں کو نوکریوں سے نوازا جائے۔ پوری قوم کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا کہ ہم دنیا بھر کے 195ممالک میں پہلے نمبر آچکے ہیں،یہ نمبر بے شک گندگی ،آلودگی اور جہالت کی شکل میں ہی ملا ہو لیکن ہیں ہم پہلے نمبر پرملک کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور کے بعد ملتان دوسرے، اسلام آباد تیسرے، پشاور چوتھے، راولپنڈی پانچویں، ہری پور چھٹے اور کراچی ساتویں نمبر پر ہے بلا شبہ ہم نے یہ درجہ بندی بڑی محنت اور مشقت سے حاصل کی ہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا میڈیا ،ہمارے ادارے اور ہماری سرکار دنیا میں یہ نمایا ںمقام حاصل کرنے پر خوشی نہیں منا رہی اور نہ ہی اس حوالہ سے لوگوں کو بتایا جارہا ہے جبکہ فضول سی بحثوں میں صبح سے شام تک لوگوں کو الجھایاہوا ہے کبھی گنڈا پور کے بیان پر تیر اندازی کے لیے حکومت کی پوری ٹیم مصروف ہوجاتی ہے تو کبھی پکڑ دکڑ میں سارے ادارے مصروف ہو جاتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو پھر قیدی نمبر804 کی کردار کشی میں سب کچھ جھونک دیا جاتا ہے اب دنیا تبدیل ہوچکی ہے اور پاکستان میں بھی لوگوں کے ذہن بریانی کی پلیٹوں سے باہر نکل رہے ہیں،76 سال ہوگئے ہیںسیاستدان ہیں لیکن جمہوریت نہیں بیورو کریسی ہے لیکن مینجمنٹ نہیں،پولیس ہے لیکن امن نہیں،ہسپتال ہیں لیکن علاج نہیں ،ادارے ہےں لیکن سیکیورٹی نہیں، عدالتیں ہیں لیکن انصاف نہیںاس وقت پاکستانی عدالتوں میں تقریباً دو ملین کیسز زیر التوا ہیں۔کوئی یہ بھی بتا دے کہ کیا واقعی ملک میں جمہوریت کا راج ہے اوریہ بھی بتا دے کہ گذرے ہوئے 76 سال میں میرٹ پر ترقیاں اور تعیناتیاں ہوئی ہیں اور اگر یہ بھی بتادیا جائے تو احسان ہوگا کہ جو جو وزیربنائے گئے ہیں انکے سفارشی کون ہیں اورکیا وہ ان اداروںکے میرٹ پر پورا اترتے ہیں جہاں انہیں لگایا گیا ہے اور یہ بھی بتایا جائے کہ ایک استاد کوایک ہی سکیل میں پڑھاتے ہوئے ریٹائر ہونا پڑتا ہے اور اسکی ترقی کیوں نہیں ہوتی اور دوسرے اداروں میں بیٹھے ہوئے دن دگنی اور رات چوگنی ترقیاں کرتے رہتے ہیں کیا ہم اتنے ہی محسن کش،بے وفا اور دوسروں میں کیڑے نکالنے والے بن چکے ہیں کہ ہمیں اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا جبکہ دوسروں کی آنکھ کا تنکا ہم ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔