Site icon Daily Pakistan

ادب سماج کو سنوارتا ہے

اس وقت ملک ایک عجیب و غریب صورت حال سے دو چار ہے۔ لوگ مایوس اور بے چین ہیں،ان میں مایوسی بھی ہے اور غم و غصہ بھی، حکومت کے فیصلوں سے ناراض بھی ہیںاور سرکاری رویہ سے خفا بھی ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کو پریشان کیا ہے اور وہ احتجاج پہ مجبور ہیں۔ احتجاجات کاایک سلسلہ ہے جو چل پڑا ہے۔ یہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے۔ لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی یہ بے چینی کی کیفیت، مایوسی کا یہ عالم اور دلوں میں پلنے والا یہ غم و غصہ کس انجام کو پہنچے گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر وقت رہتے اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور اس مسئلہ کے سد باب کےلئے سرکار کی سطح پر کوشش نہیں کی گئی توخدشہ ہے کہ یہ حالات ملک کی تصویر نہ بدل دیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”جب سیاست لڑکھڑاتی ہے تو ادب اسے سنبھالتا ہے۔“ یہ جملہ آج پوری طرح سچ ثابت ہو رہا ہے۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جہاں ایک طرف کچھ لوگ سیاست کو پراگندہ کر تے ہیں اور مسلک، فرقہ، ذات اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرکے مفاد پرستی کی سیاست کر تے ہیں، تو دوسری طرف ادیب، شاعرو ادیب اورصحافی اورقلم کا ر کثرت میں وحدت کا پیغام عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ سماجی ہم آہنگی کیلئے انسانیت، محبت، رواداری اور اتحاد و اتفاق کی شمع روشن کرکے ملک کے شیرازہ کو بکھیرنے کی سیاسی سازش میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنے اور شعوری بیداری کا فریضہ پورا کرتے ہیں۔ شاعری کا مفہوم ہے، موزوں الفاظ کے چناﺅ میں کسی واقعہ ،حادثہ ،کیفیت،نظریے ، ماضی ،حال مستقبل وغیرہ کو بیان کرنا۔شعر کہتے ہیں جاننے ،پہچاننے ،واقفیت کو۔اس میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔شاعر معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے ،ہر فرد جو سوچتا ہے۔اسے چاہتا ہے دوسروں تک پہنچائے ،اپنی سوچ و خیالات دوسروں تک مناسب ،موزوں الفاظ میں پہچانے کو شاعری کہتے ہیں۔”حمدو نعت“”غزل“”شعر””نظم “”قطعہ "”سہر ا “”منقبت“” ہجو“’ ’وسوخت“ ” گیت“ ”مثنوی“”مناجات“کے علاوہ ، قوالی، ریختی ، ماہیا،دوہا،ہائیکو،وغیرہ شاعری کی اقسام ہیں ۔شاعر اور ادیب جہاں لب ورخسار اور محبوبہ کے نقش ونگار اور اس کی موٹی موٹی آنکھوں ، سیاہ زلفوں کی درازیوںاور جمالیاتی حسن کو موضوع بحث بنا کر یادکرتے ہیں وہاں وہ دھرتی میں بھی محبت عام کرنے کی بات کرتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ انسانیت کے مابین محبت رشتے کا قومی ترقی میں اہم کردار ہوتا ہے اس لیئے اس رشتے کو مضبوط بنایا جائے۔محبت کی طاقت جیسے جیسے کمزور ہوتی ہے، اسی تناسب سے نفرت کا اندھیرا بڑھتا چلا جاتا ہے دلوں کو جوڑنے کے کام میں شاعروں اور ادیبوں نے ہردور میں اپنا حصہ ڈالا ہے اورفرقہ پرستی اور فسطائی قوتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا ہے اور موٹی موٹی آنکھوں کے تذکرے اور لب ورخسار کی حاشہ آرائیاں در اصل اس عظیم مشن کے استعارے ہیں جسے بنیاد بنا کر انہوںنے عظیم مشن کی تکمیل کی ہے اب وقت کا تقاضا ہے کہ تشدد کا راستہ ترک کر کے قلم کو بطور ہتیار اسعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ترقی کے منزل کو پہنچنا آسان ہوجائیگا۔ فی زمانہ ضروری ہے کہ ہمارے شعراءصرف لب ورخسار ،غم جاناں کو اپنی شاعری کا محورر نہ بنائیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں کیونکہ ادب اور سماج کا آپس میں گہرا رشتہ ہے ،سماج ادب سے تشکیل پاتا ہے اور ادب سماج کو سنوارتا ہے ۔ رومانی شاعری نہ کی جائے ہم یہ کہہ رہے ہیں موجودہ عہد کو سامنے رکھ کر اس کے مسائل پر بھی شاعری کی جائے۔ملک میں مسلک اور فرقہ کے نام پر جو سیاست ہو رہی ہے اس کے نہایت ہولناک نتائج نکل رہے ہیںملک اب صرف دہشت گردی تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ فرقہ پرستی اور لسانیت کے لپیٹ میں ہے۔ فرقہ پرست سیاست سب سے پہلے دوسرے مسلک کے ماننے والوں کیخلاف نفرت پھیلاتے ہیں حالانکہ دین لوگوں کو جوڑتا ہے، توڑتا نہیں ہے، مگر آج کی سیاست لوگوں کو ذات پات ، مسلک اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہے۔ اس تقسیم کو ختم کرنے میں اہل قلم کا کردار بہت اہم ہے ۔ قلم کو بطورہتھیار استعمال کرنے اور ادب اور شاعری کے ذریعے دلوں کو جوڑنا ضروری ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ملک میں صالح نظام موجود ہو جہاں انارکی ہو وہاں یہ نسخہ کارگر نہیں ہے وہاں انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس جدوجہد کے دوران بھی قلم ہی کا کردار ہوتا ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انقلابی جدوجہد کے دوران شعراء اور ادیبوں نے قلم کا استعمال کیا ہے اور ”ہاتھوں کو مسلح کرنے سے پہلے دماغ کو مسلح “کرنے کا پیغام پہنچایا ہے۔تاریخ اس کی گواہ ہے کہ امن کے داعی شعراءنے نا موافق حالات میں بھی انسانیت کے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کیا ہے او رہر دور میںوہ محبت و انسانیت کی شمع جلاتے رہے ہیںاور انسانیت کے مابین تفریق کو ختم کرکے ان کو صرف ایک محبوب کے رنگ میں رنگ جانے اور اس کے آگے سر جھکا دینے کا درس دیا ہے اور سچائی پر مبنی یہ پیغام دیا کہ” پیار و محبت امن کا راستہ ہے“۔ انسا نیت کا یہ درس دیتا ہے انسان کا احترام ہونا چائیے۔ اس پیغام کو گھر گھر پہنچانے کی بھی کوشش ریاستی اداروں اور سماجی اور سیاسی تنظیموں کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ملک کی اصلی طاقت اتحاد اور یکجہتی ہے۔ دلوں کو جوڑنے والے لوگ ہر دور میں رہے ہیں آج بھی موجود ہیں اور رہیں گے۔ محبت کی شمع نہ کبھی بجھی ہے او رنہ کبھی بجھے گی اور اس کے مقابل دلوں کو توڑنے والے لوگ بھی ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی دندناتے پھر رہے ہیںاوران کی سازشوں سے دنیا تنگ ہے ایسے لوگوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا بس ایک ہی راستہ ہے کہ دلوں کو جوڑنے اور محبت کا چراغ روشن رکھنے کی مہم کو مسلسل جاری رکھا جائے اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جیت بالآخر روشنی کی ہی ہوتی ہے۔

Exit mobile version