کالم

اطمینانِ قلب

اس میں شک نہیں کہ اطمینانِ قلب تو صرف اللہ کی یاد سے ہوتا ہے۔ پھر بھی علماءاکرام قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے اپنے طور پر اطمینانِ قلب کی تشریح کرتے رہتے ہیں ۔ جناب حکیم مشتاق احمد اصلاحی صا حب کی کتاب”اطمینان قلب“ کا مطالعہ قارئین کی نذر کر رہا ہو ں ۔ حکیم مشتاق احمد اصلاحی کا شمار ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جو نام ونمود کی بجائے قوم و ملت کی خدمت کو اپنا شعار بناتے ہیں۔مشتاق احمد تحریک آزادی پاکستان، تحریک دستور پاکستان، تحریک جمہوریت، تحریک مصطفی، تحریک ختم نبوت اور تمام عوامی تحریکوں میں شامل رہے۔ کئی بار گرفتار ہوئے اور قید وبند کی تکلیفیں برداشت کیں۔ساری زندگی غلبہ دین کی جد وجہد میں گزاری۔ انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دو مختلف تصور سے برسر پیکار رہا ہے۔ ایک مادی ترقی اور دوسری روحانی اور اخلاقی ترقی۔انسان نے مادی ترقی کو اعلیٰ مقصد قرار دے دیا گیا۔اس میں اتنا گرفتار ہوا کہ روحانی اور اخلاقی تنزل کا شکار ہو گیا۔ آج مغربی تہذیب کا یہ نقطہ نظر ہے۔ایک نام در و فلسفی نے اس کو اسطرح بیان کیا کہ ہم نے فضاﺅں میں پرندوں کی طرح اُڑنا اور سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیرنا تو سیکھ لیا ہے لیکن زمین پر انسانوں کی طرح رہمنا نہ سیکھ سکے“اسی کو فلسفی شاعر علامہ شیخ محمد اقبالؒ ے اس طرح بیان کیا کہ ھونڈنے والا ساروں کی گزرگاہوں کااپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکاجس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا حکیم مشتاق احمد نے ان تمام باتوں کو اس کتاب میں جمع کر دیا ہے جس میں مادی ، روحانی ا ور اخلاقی ترقی سے اطمینانِ قلب مل سکتا ہے۔ مرحوم سید اسد گیلانی ڈاریکٹر اسلامی اکیڈمی منصورہ مرکز لاہور فرماتے ہیں کہ مشتاق احمد نے اس مشینی دور میں اطمینان ِقلب ایک ایسا مضمون منتخب کیا ہے جو اس دور کی ضرورت ہے۔یہ کتاب دور حاضر کے پریشان انسان کے لیے بہت ہی مفید ہے۔ اطمینان قلب کتاب کا منبع تعلق با اللہ اور توکل اللہ ہے اوریہی اطمینان قلب کا حقیقی سر چشمہ ہے۔فضیلة الشیخ امام نفیس احمد اصلاحی ڈائریکٹر اصلاح معاشرہ ٹرسٹ پاکستا ن رقم تراز ہیں کہ اس موجودہ دور میں ایسی کتابیں لکھے جانے کی ضرورت ہے۔فاضل مصنف نے انسان کی خودی کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انسان کو مایوسی سے نکال کر پاکیزہ اور اطمینان قلب کے ساتھ زندگی گزانے کی طرف رہنمائی کی ہے ۔اطمینان قلب کی دولت ایک ایسی نعمت ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ لکھتے ہیں کہ آج امریکا اور یورپ دنیا کے متمول، ترقی یافتہ ،اور مشغول ترین ممالک ہیں ہے۔ہر شخص کار،کوٹھی، وافر دولت اور کھانے پینے کی تمام چیزیں انہیں میسر ہیں۔لیکن اطمینان قلب نہیں۔ ان کے ڈاکٹر، فلسفی، ماہرینِ نفسیات اور دانشور چیخ اُٹھے ہیں اور اس کیفیت کے سدباب کی ان کو کوئی صورت نظر نہیں آتی۔بے چینی کا یہ عالم ہے کہ چند سال قبل ایک ششماہی میں صرف ریاست کیلیفورنیا کے پانچ لاکھ باشندوں نے بے اطمینانی اور مایوسی کا شکار ہو کر خود کشی کی ۔ ان ممالک میں جنون اور پاگل پن جیسے امرا ض کی کثرت ہو رہی ہے۔ میشیگن یونیورسٹی کے پال ایچ ہارڈن اور فلوریڈا یونیورسٹی کے گیرل کے لسلی لکھتے ہیںکہ ۰۱ سال قبل امریکا کے تمام ہسپتالوں میں جتنے بستر تھے ان پر تقریباً نصف تعداد دماغی مریضوں کی ہوتی ہے۔اب یہ تعداد بڑھ کر۷۳فیصد ہوگئی ہے۔مصنف صفحہ نمبر ۷۲تا۹۲ میں لکھتاہے کہ:۔ مغرب میں غم کو ختم کرنے کیلئے ہزاروں ٹن مسکن ادویات (tranqualizer) بھی استعمال کرتے ہیں۔ امریکا میں ڈرگ ایک سال میں ۰۵۲ملین ڈالرز یعنی اڑھائی ارب روپیہ کی مسکن ادویات استعمال ہوتی ہیں۔ان ممالک کے ڈاکڑوں اور فزشنوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس روزانہ کئی مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو بطاہر کوئی بیماری نہیں ہوتی، مختلف چیک اب کروانے کے بعد بھی ان کی کسی بیماری کا پتہ نہیں چلتا مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم بیمار ہیں۔ در اصل یہ کوئی جسمانی بیماری نہیں ہے بلکہ ان کی روح بے قرار و مددگار ہے اور اطمینان کی متمنی ہے۔امریکاکے مشہور ماہر اقصادیات و سشیالوجی فرنینڈ برگ اور مشہور ماہر نفسیات و دماغی امراض مارینا دونوں لکھتے ہیں کہ جدید انسانی زندگی میں غم و الم اور پریشا نیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔مادی ترقی حد کو پہنچ چکی ہے۔اس کے باوجود یہ انسانی تاریخ میں سب سے بڑھ کر بے اطمینانی، غمگینی اور ناخوشی کا دور ہے۔ہم میں سے ۰۵ تا ۰۶ فیصد لوگ اعتصابی اور نفسیاتی بیماریوں سے پریشان ہیں ۔ٹائم میگزین کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تجارتی اداروں کے پچاس ہزار مینجرز کی صحت کا معائنہ کیا گیا۔ جن کی عمریں اوسطاً ۵۴ سال کی تھیں،۵۲ فیصد کی صحت نارمل تھی باقی بیمار تھے۔ سوشلسٹ ملک فن لینڈ میں تمام دنیاسے زیادہ قتل ہوتے ہیں۔امریکا میں ہر سال بیس ہزار سے زائد قتل ہوتے ہیں ۳۷۹۱ءمیں پچاس ہزار زنا بالجبر کے واقعات ہوئے ۔ پھریہ تعداد دوگنی ہو گئی۔ ہر سال پچیس لاکھ مکانوں میں چوریاں ہوتی ہیں۔ ہرسال ذہنی پریشانیوں اور تفکرات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے پچیس ہزار افراد خود کشی کرتے ہیں۔ہر سال تقریباً گیارہ لاکھ لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں۔غموں میں مبتلا لوگ امراض قلب کا شاکار ہوتے ہیں۔یورپی اور دوسرے ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ اطمینان قلب کےلئے لوگ نشہ استعمال کرنے لگتے ہیں ، ۱۷۹۱ءکی بات ہے راقم نے اخبار دیکھی کہ کسی یورپی ملک میں ایک ہزار شہریوں نے مل کر اجتماہی طور پر زہر پی کر خود کشی کی ۔ ان ہی دونوں اطمینان،قلب کی تلاش میں انگریز جوڑے پاکستان کے بڑے شہروں میں نشہ کی حالت میں گھومتے دیکھے گئے تھے۔ ایس جوڑوں کو ہپی کا نام دیا گیا تھا۔ویسے بھی مغرب اور امریکا کا معاشرہ تنزل کا شکار ہے۔ اطمینان قلب کتاب کی پہلی اشاعت ۷۷۹۱ءمیں ہوئی ۔ اس وقت کے حالات قلم بند کیے گئے۔ قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت ۱۲۰۲ءمیںاعداد شمار کیا ہونگے۔مصف لکھتا ہے کہ:۔ نفسیاتی علاج خدا کے ساتھ تعلق،اس کی عبادت اورخدا خوفی سے ممکن ہے۔شاعر اسلام اور فلسفی شاعر حضرت علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے کہا کہ مغرب اللہ کی طرف سے ہدایت گم کر بیٹھا۔اب اس کو اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہمنائی کی ضرورت ہے۔ اسی سے اس کو روحانی غذا مل سکتی ہے۔مصنف علامہ اقبال ؒکی کتاب بالِ جبرئیل یہ اشعار کوٹ کرتے ہیں،
لباب شیشہ تہذیب حاضر ہے مے لا سے
مگر ساقی کےاہاتھوں میں نہیں پیمانہ ا لاّ
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سَروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلہ
مصنف لکھتا کہ انسانی نفس امارہ برائی اور نفس لوامہ جس کا دوسرا نام ضمیر ہے۔ نیکی اور برائی کی تمیز سکھاتا ہے۔ نفس مطمئنہ صحیح راستے پر چلنے اور غلط راستے چھوڑنے دینے پر آمادہ اور مطمئن کرتا ہے۔ اطمینانِ قلب اسی سے حاصل ہوتا ہے جو کامیابی کی شاہ کلید ہے۔کتاب” اطمینانِ قلب“میں مصنف نے قر آن وحدیث کی روشنی میں سارے لوازمات اکٹھے کر دیے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے انسان اطمینان ِقلب حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri