کالم

افغان جنگ، پاکستان اور بدلتی حکمتِ عملی

1979 میں سویت یونین کی افغانستان میں مداخلت نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے سیاسی نقشے کو بدل کر رکھ دیا۔ سویت یونین نے افغانستان میں کمزور اور اشتراکی حکومتوں کو برقرار رکھنے کےلئے فوجی مداخلت کی، جس کے نتیجے میں افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ اس جنگ نے جہاں افغانستان کو ایک تباہی سے دوچار کیا، وہاں پاکستان سمیت دیگر ممالک بھی اس جنگ میں ملوث ہوئے۔افغانستان میں سویت یونین کی افواج کے داخلے کے بعد پاکستان نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں جہادی تحریکوں کی حمایت شروع کی۔ پشاور کے سرحدی علاقوں میں افغان مجاہدین کی مختلف جماعتوں نے اپنے آپ کو منظم کیا، جن میں گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور دیگر اہم رہنما شامل تھے۔ ان جماعتوں کو سی آئی اے، سعودی عرب اور پاکستان کی آئی ایس آئی نے مالی، عسکری اور انٹیلی جنس مدد فراہم کی۔ پاکستان کے پشاور شہر میں اس دوران افغان جہادیوں کےلئے مختلف تربیتی کیمپ قائم کیے گئے اور یہیں سے افغان مزاحمت کی لہر نے جنم لیا۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد، افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا، جس میں مختلف جہادی گروہ آپس میں اقتدار کی جنگ میں ملوث ہو گئے۔ 1992 میں حفیظ اللہ امین کی حکومت ختم ہوئی اور افغان کمیونسٹوں کےخلاف لڑنے والے مختلف گروہ اقتدار کےلئے آمنے سامنے آئے۔ لیکن طالبان کی تحریک، جو کہ 1996 میں افغانستان میں قابض ہوئی ، ایک نئی سیاسی حقیقت کے طور پر ابھری۔ طالبان کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا ، جس کےلئے انہوں نے سوشلسٹ نظریات کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں سخت گیر اسلامی قوانین نافذ کیے گئے۔ طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر صرف تین ممالک— پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا۔ اس دوران افغان معاشرے میں تبدیلی آئی اور خواتین کے حقوق کے بارے میں مغربی میڈیا نے ٓواز اٹھائی کہ شدید کمی آئی، جبکہ یہ حقیقت کہ بہت مسائل طالبان کو ورثہ مین ملے تھے جیسے ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا فروغ افغان جنگ کے دوران ہوا جو ابی تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونےوالے دہشتگرد حملوں کے بعد، افغانستان میں طالبان حکومت کیخلاف امریکی حملہ شروع ہوا۔ امریکہ نے افغانستان پر فوجی حملہ کر کے طالبان حکومت کو ختم کر دیا اور اس کے بعد افغانستان میں ایک طویل اور خونریز جنگ کا آغاز ہوا۔ بیس سالہ امریکی موجودگی کے دوران طالبان نے پھر سے اپنی طاقت کو دوبارہ منظم کیا، اور 2021 میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا ۔ پاکستان نے اس عرصے میں مختلف حکومتی پالیسیوں کو اپنایا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں تصادم کے بجائے امن و مفاہمت کی پالیسی کو ترجیح دی۔ اس دوران پاکستان نے طالبان کو اپنے ساتھ مذاکرات کےلئے دعوت دی۔ یہ مذاکرات ایک نئی حکمتِ عملی کا حصہ تھے جس میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔موجودہ حکومت نے ابتدا میں طالبان کےساتھ مذاکرات کی مخالفت کی، مگر جیسے جیسے حالات بدلتے گئے، حکومتی موقف میں بھی تبدیلی آئی۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے طالبان حکام سے ملاقات کےلئے افغانستان کا دورہ کیا اور ان سے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان اب طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ افغانستان میں جانی اور مالی نقصان کے علاوہ اس جنگ نے پورے خطے میں ایک نیا کلچر بھی پیدا کیا۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کا کلچر افغانستان سے پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک تک پھیل گیا۔ اس نے نہ صرف علاقے میں تشدد میں اضافہ کیا بلکہ ان ممالک کی معیشت اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔امریکی انخلا اور طالبان کی واپسی کے بعد، افغانستان میں موجود اسلحہ کی بڑی مقدار دنیا بھر میں پھیل گئی، جس سے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے۔ امریکی فوج نے افغانستان سے انخلا کے دوران بھاری مقدار میں اسلحہ، گاڑیاں اور جنگی ساز و سامان چھوڑا، جو اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔یہ تمام حالات ہمیں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جنگ اور تصادم کے بجائے امن اور مذاکرات ہی کسی بھی مسئلے کا مستقل حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو اپنے روابط اور تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک میں امن قائم ہو سکے اور خطے میں پائیدار ترقی کی راہیں کھل سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے