اس وقت ملک ایک ایسے فرسودہ، زوال پذیر اور عوام پر مسلط فاسد نظام کی گرفت میں ہے جس کی سوچ، ساخت اور کارکردگی نئی نسل کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں رہی۔ نوجوان، جو قوم کا مضبوط ترین ستون ہیں، اس بوسیدہ سیاسی و معاشی ڈھانچے کیخلاف شدید بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ اس نظام کی بدانتظامی، ناانصافی اور بار بار کی ناکامی نے آج کی نسل میں اعتماد کا بحران پیدا کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل ملک سے باہر جانے کیلئے ڈبکیاں لگانے پہ مجبور ہیں۔ انہی حالات میں افہام و تفہیم، سنجیدہ مکالمے اور اجتماعی بصیرت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔پاکستان کی قومی تاریخ یہ کڑوی حقیقت بار بار دہراتی رہی ہے کہ قیادت کے مسلسل فقدان نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی لیاقت علی خان کا قتل، پھر سیاسی عدم استحکام کے سلسلے، اور آخرکار بے نظیر بھٹو کی شہادت تک ہمارے قومی رہنمائوں کی زندگیوں پر ایسے حملے ہوئے جنہوں نے ریاستی استحکام کو مسلسل کمزور کیا۔ یہی خلا بعد میں مفادات کی سیاست کا راستہ بنا، جبکہ قومی ایجنڈا پس منظر میں چلا گیا۔ سیاست خدمت کے بجائے طاقت، پیسے اور ذاتی مفاد کی کشمکش میں تبدیل ہو گئی۔اسی ماحول میں انفرادی رویّے نے قومی سوچ کو شدید نقصان پہنچایا۔ پارلیمنٹ تک رسائی نظریے یا خدمت کے بجائے محض دولت کی بنیاد پر ممکن ہو گئی۔ ملک میں جمہوریت اپنی اصل روح کھو کر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا کھیل بن چکی ہے، جہاں اختیار، فیصلہ سازی اور اقتدار چند مخصوص خاندانوں کے پاس مرتکز ہے۔ مورثی سیاست نے صورتِ حال مزید ابتر کر دی۔ وہی چہرے بار بار اقتدار کے گرد گھومتے رہے اور نئی قیادت کے ابھرنے کے تمام راستے مسدود ہو گئے۔ نوجوان نسل اسی سے سب سے زیادہ بیزار ہے۔فرقہ واریت، گروہ بندی اور فتویٰ فروشی نے معاشرے کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ زہر صرف عوام تک محدود نہ رہا بلکہ ریاستی پالیسیوں میں بھی دراڑیں ڈالتا رہا۔ مذہبی شدت پسندی، لسانی منافرت اور گروہی تقسیم نے پاکستان کو وہ زخم دیے جنہوں نے ایک طویل مدت تک امن و امان اور ترقی کے راستے کو روکے رکھا۔ دہشت گردی کے لیے پیدا کیے گئے حالات اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانیاں ہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب ہیں۔
اداروں میں غیر اہل، غیر تربیت یافتہ اور محض اثرورسوخ کی بنیاد پر تعینات افراد نے ریاستی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا۔ میرٹ کے قتل نے اداروں کو کھوکھلا بھی کیا اور عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ اس ساری کمزوری کا فائدہ عالمی طاقتوں نے خوب اٹھایا۔ پاکستان کی سیاست اور معیشت میں ان کا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ گیا کہ اہم فیصلے اکثر ملک کے اندر کم اور باہر زیادہ ہوتے رہے، کبھی لندن پلان، کبھی دبئی پلان اور کبھی واشنگٹن پلان کے نام سے۔پاکستان میں سیاسی اتحاد بھی اس بیرونی اور اندرونی اثر و رسوخ سے آزاد نہ رہ سکے۔ قومی اتحاد، ایم ایم اے، آئی جے آئی اور پی ڈی ایم تک، یہ سب اتحاد بظاہر عوامی مفاد کے نام پر بنے مگر ان کے پیچھے ہمیشہ طاقتور ہاتھوں کے اشارے کارفرما رہے۔ عوام کو ان اتحادوں سے کوئی دیرپا فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے حصے میں صرف مہنگائی، ٹیکسوں کا بوجھ، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی آئی۔ دوسری جانب اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے کئی افراد اپنی مدت پوری کر کے ملک سے باہر جا بسے، اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔پاکستان کی تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے، سانحہ مشرقی پاکستان، کارگل کا بحران، دہشت گردی کی لہریں، سیاسی انتشار، معاشی بدحالی،یہ سب ہمارے اجتماعی شعور پر سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر کب ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے؟ قومی وسائل کئی بار ذاتی مفاد کے لیے غیروں کے حوالے کیے گئے۔ جھوٹ، فریب، کھوکھلے نعروں اور جذباتی سیاست نے عوام کے اعتماد کو تباہ کیا۔ اس کا نتیجہ نئی نسل کی شدید مایوسی اور نفرت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے، جس نے معاشرتی رواداری، برداشت اور ہم آہنگی کو خطرناک حد تک متاثر کر دیا ہے۔ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ریاست کے اندر طاقت کے مراکز بار بار ایسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جو دہشت گردی یا انتشار کے لیے زمین ہموار کر دیتے ہیں، اور بعد میں انہی مسائل کے حل کا دعویٰ کر کے عوام کو مزید گمراہ کیا جاتا ہے۔ نوجوان سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ ملک واقعی عوامی جمہوریہ ہے تو پھر انصاف، برابری، روزگار اور مواقع صرف وعدو ں میں کیوں ملتے ہیں؟
معیشت کمزور ہے، سیاست منتشر ہے اور ادارے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مستقبل کا راستہ موجود ہے۔ بس اس کے لیے سچائی کا سامنا، اجتماعی بصیرت، شفاف فیصلہ سازی، اہل قیادت کا انتخاب، میرٹ کی بحالی اور عوام کو حقیقی معنوں میں طاقت دینا ضروری ہے۔ پاکستان اسی وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے جب ہم اپنے ذاتی اور انفرادی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو اولیت دیں۔کیوں کہ موجودہ فرسودہ، غیر منصفانہ اور عوام پر مسلط نظام اب مزید نہیں چل سکتا۔ نوجوان نسل اسے ہرگز قبول کرنے کو تیار نہیں، تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سچائی، رواداری، مکالمے اور افہام و تفہیم کے ساتھ ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں،وہ پاکستان جو انصاف، شفافیت، میرٹ، مساوات اور استحکام پر کھڑا ہو۔ نئی نسل زوال نہیںترقی اورامید چاہتی ہے۔ اور یہی امیدہمہ گیر سماجی اور سیاسی تبدیلی سے ممکن ہے۔
کالم
افہام و تفہیم وقت کا تقاضا!
- by web desk
- دسمبر 4, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 94 Views
- 4 ہفتے ago

