شمالی وزیرستان کے سیاحتی مقام سب ڈویژن رزمک کے بازار میں دھماکہ ہوا ہے ، انتظامیہ نے یہ دھماکہ خودکش قرار دیا ہے جس میں14 افراد اللہ کو پیارے ہوئے ہیں جبکہ زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں ۔ انسانیت مٹ رہی ہے ، یہ کیا دستور ہے اور یہ کیسی سوچ ہے کہ ہم اشرف المخلوقات ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں ۔ آپ یہ سوچیں کہ پانچ سالہ ، سات سالہ اور دس سالہ ان تین معصوم بچوں کا کیا قصور تھا ، ان کا جرم کیا تھا جو اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ ہندو پاک کے پردھان شاعر جوش ملیح آبادی کی پوتی اور عہد موجود کی معروف شاعرہ محترمہ تبسم ملیح آبادی نے شاید ایسے ہی احساسات کو سمیٹتے ہوئے فرمایا تھا کہ :
اس جگ کے حالات تو بد سے بدتر ہوتے جائیں گے
لوگ بڑے اور انسان کم سے کم تر ہوتے جائیں گے
الجھے ہوئے حالات کی گتھی کون یہاں سلجھائے گا
انسان ہی جب ساکت ، جامد ، پتھر ہوتے جائیں گے
سارا بلوچستان ہمارا پیارا بلوچستان لہو لہو گیا ہے ، اس صوبے کے مختلف اضلاع میں چوبیس گھنٹوں کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں چودہ جوانوں سمیت 54 افراد شہید ہو گئے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے مذمت کی ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آو¿ٹ کرنے پر پیغام جاری کرتے ہوئے حکومتی رویہ کی مذمت کی اور کہا کہ ہم حالیہ دہشت گردی اور ختم نبوت کیس کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں ان اہم معاملات پر بات کرنے سے روک دیا گیا ، حکومت اگر عوام کی آواز نہیں سنے گی تو ملک میں لاقانونیت بڑھے گی۔ صد افسوس کہ ملک و قوم کو مشکل ترین مسائل اور مشکلات میں دھکیلنے والے کرتا دھرتا آپس کی لڑائیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ غریب عوام کی تو زندگی ہی اجیرن کر دی ہے انہوں نے ہم کیا لکھیں دل خون کے آنسو روتا ہے آج کے حالات کو دیکھ کر اور ان سب کرتا دھرتاو¿ں کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں ۔ آئیں آج ہم ان پاناموں کو چھوڑ کر اور ان توشہ خانوں سے نکل کر بھی کچھ سوچتے ہیں کیونکہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔ فیض کے الفاظ میں :
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
آج ہم بات کرتے ہیں ایک ادبی گھرانے کی جو پاک و ہند کے علمی و ادبی گھرانوں میں بہت ہی نمایاں اور اہم ہے ۔جوش ملیح آبادی کے نام ، کام اور مقام سے کون نہیں واقف کہ جوش جی کے ذکر و فکر کے بغیر برصغیر و ایشیا کی شعری تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی بلکہ ادھوری و نامکمل رہ جاتی ہے ۔ جوش جی ملیح آبادی وادی ادب میں سب سے اچھے ، سچے و سچے اور اچھوتے و نیارے تھے ، دنیائے ادب کے فلک کے روشن چاند ستارے ۔یہ حقیقت نہ صرف پورا پاکستان ، سارا ہندوستان جانتا ہے بلکہ سات سمندر پار تک بھی سارا جہاں جانتا ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم سب علمی و ادبی و فکری مسلک پرستی اور گروپ بندیوں میں بٹے کے بٹے رہ گئے ہیں ، ہم مولویوں کی مانند فرقہ واریت کے دائروں کے قیدی ہی بنے رہے ہیں، متعلقہ شخصیات اور ادارے میری اس بات پر بغور توجہ فرمائیں کہ جوش جی ملیح آبادی پر اس قدر کام نہیں ہو سکا جتنا ہونا چاہیے تھا ، یہ ہمارے لیے لازم و ملزوم تھا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اب تو ہوش کے ناخن لیں اور اتنی عظیم ہستی کی تخلیقات کو سنبھالیں اور ان کی خدمات کی قدر کریں ، آپ ملاحظہ فرمائیے موصوف کا بے مثال کلام :
اے مرتضیٰ ، مدینہ علم خدا کے باب
اسرار حق ہیں تیری نگاہوں میں بے نقاب
ہے تیری چشم فیض سے اسلام کامیاب
ہر سانس ہے مکارم اخلاق کا شباب
نقش سجود میں وہ ترے سوز و ساز ہے
فرش حرم کو جس کی تجلی پہ ناز ہے
جوش جی کی پوتی محترمہ تبسم ملیح آبادی بھی بفضل اللہ اپنے بابا کی شمع کو جلائے ہوئے ہیں ۔پاکستان کی معروف شاعرہ محترمہ تبسم آفریدی ملیح آبادی شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی پوتی اور ریاست جونا گڑھ کے سابق وزیراعظم دیوان بیرسٹر محمد امین کی نواسی ہیں ۔ ان کی اپنی شاعری کا مجموعہ بھی تیار ہے مگر وہ فرماتی ہے کہ میری زندگی کے دو ہی تو اہم مقاصد ہیں ، اول یہ کہ جوش جی کے آخری مجموعہ کلام مہمل و جرس کی اشاعت اور دوسرا جوش صاحب کے حوالے سے مرتب کردہ میری اپنی کتاب جوش درون خانہ کی اشاعت چاہتی ہوں ۔ تبسم مزید فرماتی ہیں کہ میرے بابا کا ایک نایاب رقعہ جو انہوں نے مجھے میری بیماری کے دوران لکھا تھا ۔ میں ہسپتال میں تھی ، سخت سردی کا موسم تھا ، بابا کے گھٹنوں میں شدید تکلیف تھی جس کے باعث وہ آفیسر وارڈ second floor پر نہیں آ سکتے تھے اس لیے گھر کے افراد کے ہاتھوں انہوں نے یہ رقعہ مجھے بھیجا تھا ۔ میری پیاری پختوری ! ہائے کیوں کر تجھ تک پہنچوں ، ان دکھتے گھٹنوں سے کیوں کر سیڑھیاں طے کروں ، اللہ تجھ کو اچھا اور مجھ کو تجھ پر قربان کر دے ۔ نیچے جوش صاحب کے دستخط ہیں ، جوش لکھا ہے اردو میں اور تاریخ درج ہے ۔ (1980-3 -6) یہ رقعہ آج بھی مجھے اپنے بابا کے قرب کا احساس دلاتا رہتا ہے کہ رشتے کتنے قیمتی ہوتے ہیں ۔ آج جب کوئی اپنا پسینہ بھی کسی پر ٹپکانا گوارا نہیں کرتا وہیں دادا اپنی پیاری پوتی کی صحت یابی کے عوض اپنا آپ قربان کرنے کو تیار تھے ۔ ہائے میرے بابا!آپ اپنی پیاری پوتی کو کیوں اس سفاک دنیا کے سپرد کر گئے جہاں میرے آنسوں کی قیمت نمکین پانی کے سوا کچھ نہیں ۔
کالم
الجھے حالات کی گتھی کون سلجھائے گا۔؟
- by web desk
- اگست 31, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 75 Views
- 2 ہفتے ago