کالم

انتہا پسند بھارتی بیانیہ

پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔جو کبھی جنگوں کی شکل اختیار کرتی رہی ہے تو کبھی سیاسی و سفارتی محاذ آرائی کی شکل میں موضوع بحث رہی ہے۔تقسیم ہند وہ زخم ہے جو انتہا پسند بنیا رستے زخم کی طرح چاٹ رہا ہے ۔ ہندوستان کا تقسیم ہونا ایک فطری عمل تھا ۔اگر ہندو سامراج کی طرف سے اسے دل سے قبول کر لیا جاتا تو یقینا آج خطہ امن کی آماجگاہ ہوتا اور دو پڑوسی ملک اچھے تعلقات کے ساتھ رہ رہے ہوتے۔ 77 سالہ تاریخ نے بہت سارے نشیب فراز دیکھے بہت سا پانی پلوں کی نیچے سے بہہ گیا،لیکن پاکستان کا وجود مٹا دینے کی خواہش نے دم نہ توڑا۔اسی بھیانک سراب کے پیچھے بھاگتے بھارتی حکمران ہر وقت سرگرداں رہتے ہیں، خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی جب جب بر سر اقتدار آئی ، دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اور تناو عروج پر ہی رہا، جیسے گزشتہ چند دن سے ہیں۔مودی کی قیادت میں ہندو بنیاد پرستی کی سوچ پر قائم بی جے پی گزشتہ دس بارہ سال سے بر سر اقتدار ہے۔اس عرصہ کے دوران ایک بار نہیں درجنوں بار کسی دونوں ممالک تیر و تفنگ کے ساتھ آمنے سامنے ہوئے۔ فروری 2019 میں مودی شرپسند کو وہ منہ کی کھانا پڑی کہ اگر اس میں کوئی شرم ہوتی کوئی حیا ہوتی تو بجائے اس کے کہ وہ گنگا میں اشنان کے بہانے ڈوب مرتا اس نے پاکستان کے خلاف فالس فلیگ آپریشن کی سازش ترک نہ کی۔ پٹھان کوٹ ، پلوامہ کی سازشوں کی ناکامی کے بعد پہلگام کا ہنگام رچایا گیا۔اب تک کی صورتحال سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ واقعہ بھی مکمل فالس فلیگ آپریشن کا شاخسانہ ہے جس پر خود بھارتیوں نے بھی سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں ۔سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اس سکیورٹی لیپس کا ملبہ پاکستان پر کیوں ڈالا جا رہا ہے۔بھارتی رجیم اس مخمصے میں مبتلا ہے کہ دہشتگردی کے حالیہ واقعے کا الزام پاکستان پر ڈالے یا اپنی سیکیورٹی کی ناکامی کو تسلیم کرے، جب کہ گزشتہ 30 برسوں سے مقبوضہ وادی میں چھ سات لاکھ سے زائد فوج تعینات ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت نے حالات معمول پر آنے اور سیاحت کے فروغ کا دعوی کیا، مگر یہ ہولناک واقعہ مقبوضہ وادی کے قلب میں ان نام نہاد دعوں کو چیلنج کر گیا۔
من گھڑت بھارتی بیانیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد ایل او سی عبور کر کے 70 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہلگام جیسے انتہائی محفوظ اور گنجان آباد علاقے جسے "منی سوئٹزرلینڈ” کہا جاتا ہے تک پہنچے اور صرف ان افراد کو نشانہ بنایا جنہیں وہ کشمیری جدوجہد کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے یعنی غیر ملکی اور ہندو سیاح۔ اس حملے میں شہید ہونے والے مسلمان کو بھارتی میڈیا نے یکسر نظرانداز کیا ۔ واقعہ 20 منٹ سے زائد جاری رہا، مگر سیکیورٹی فورسز کا کوئی مثر ایکشن نہ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر واقعے کے چند ہی منٹ بعد، ایک سوشل اکانٹ "بابا بنارس” فوری طور پر پاکستان اور لشکرِ طیبہ سے منسلک TRF پر انگلی اٹھاتا ہے، حالانکہ نہ TRF نے ذمہ داری قبول کی، اور نہ ہی کوئی قابلِ اعتبار ثبوت پاکستان سے روابط کی تصدیق کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جس پی ٹی سی ایل کوڈ (949) کا ذکر کیا گیا، وہ بھی پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ اس کے باوجود، بھارتی میڈیا وہی بیانیہ دہراتا ہے اور چند اگلے چند گھنٹوں میں بھارت جو خود کشمیریوں اور سکھوں پر بدترین مظالم ڈھا رہا ہے، دہشتگردی کا "شکار” بن کر پیش آتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ بھارت کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کے واضح اور ناقابلِ تردید شواہد عالمی برادری کے سامنے رکھے ہیں، جن میں BLA کی جانب سے حملے کی ذمہ داری کا اعتراف اور اس کا بھارت سے تعلق شامل ہے۔ پاکستان ہمیشہ دہشتگردی کی مذمت کرتا آیا ہے، جبکہ بھارتی دفترِ خارجہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی پر مسلسل پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے۔ریاستی اداروں کے دبا پر بھارتی میڈیا جنگی جنون کو ہوا دے کر مودی حکومت کو پاکستان کے خلاف جلد بازی میں کوئی اقدام اٹھانے پر اکسا رہا ہے۔ یہ راستہ نہ صرف خطے بلکہ خود بھارت کے لیے بھی انتہائی خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے پہلے کبھی غافل ہوا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہو گا۔ اس تناظر میں بھارت کے غیر جانبدار حلقوں کے لئے یہ چند سوالات قابلِ غور ہیں ۔ اجیت ڈووال، متعدد سیکیورٹی ناکامیوں کے باوجود قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر کیوں برقرار ہیں؟۔بڑی دہشتگردی کی ہر واردات BJP حکومت میں ہی کیوں پیش آتی ہے؟ ۔بھارت کی اصل نیت کیا ہے، کیا وہ سنگین نتائج کے لیے تیار ہے؟۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 77 برسوں سے ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ انتخابات میں BJP کے حمایت یافتہ ایجنڈے کو مسترد کر کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف اپنی رائے دی ہے۔ بھارت کے ذی ہوش حلقوں کو چاہیے کہ وہ ان مقامی جذبات کا احترام کریں، اور مودی حکومت شکروں کو شٹ اپ کال دیں کہ وہ اپنی منجھی تلے ڈانگ پھیریں اور ہر بار پاکستان پر الزام تراشی سے گریز کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے