کالم

انسانی سمگلنگ کی روک تھام وقت کی ضرورت!

قارئین!انسانی سمگلنگ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں ہورہی ہے حتیٰ کہ امریکہ،یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اِس جرم کیخلاف برسوں سے کارروائیاں کررہے ہیں لیکن انسانی سمگلنگ کسی نہ کسی شکل میں پھر بھی موجود ہے جس کے خلاف تادیبی کارروائیاں جاری ہیں ۔پاکستان سے دیگر ممالک میں انسانوں کی قیمتی جانوں کا سودا کرنے والے ظالم سمگلر نہ صرف قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں بلکہ ہنستے بستے گھروں کوبھی اُجاڑدیتے ہیں ۔اکثر واقعات میں تویہ انسانی جانوں کے ظالم سوداگر جسمانی،ذہنی تشدد کرکے ویڈیوز دکھاکر لواحقین سے مزید لاکھوں روپے بٹورتے ہیں ۔کئی واقعات تواتنے خوفناک ہیں کہ انسانی سمگلرز گنجائش سے زیادہ کنٹینٹرز میں انسانوں کوبھیڑبکریوں کی طرح بھردیتے ہیں جس میں کئی نوجوان توراستے میں ہی دم توڑدیتے ہیں ۔سپین جانیوالی کشتی سانحہ میں بھی ہوشرباانکشافات سامنے آرہے ہیں۔جاں بحق افراد کے لواحقین کے مطابق کسی نے 40لاکھ توکسی نے50لاکھ جمع کرکے انسانی سگلروں کودیئے تھے ۔اِس سانحہ میں کئی انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں ۔40کے قریب ماﺅں کے لخت جگر سمندر کی لہروں میں جان سے چلے گئے ۔حکومت کی جانب سے سانحہ میں ملوث سمگلروں کے سرغنہ کو گرفتارکرلیا گیا ہے جن میں خاتون سمیت 2 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کرکے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیاہے۔ایف آئی اے کے مطابق ملزمہ اور اس کے بیٹے کو گجرات سے گرفتار کیا گیا۔جبکہ ملزمہ نے تین بیٹوں کے ساتھ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کرلیا ہے ، موبائل اور بینک اکا¶نٹ کی تفصیلات بھی حاصل کرلی گئی ہیں، ملزمہ کا ایک بیٹا حسن اٹلی جبکہ دوسرا بیٹا خاور 10 افراد کو لے کر سینیگال گیا۔ایف آئی اے نے مراکش کشتی حادثے کے تین مقدمات درج کرلیے ہیں، یونان کشتی حادثے میں مطلوب انسانی اسمگلر کو بھمبر آزاد کشمیر سے گرفتارکیا گیا۔سانحہ کے فور اً بعد ہی وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے کشتی حادثے کی تحقیقات کےلئے چار رکنی ٹیم مراکش روانہ کردی ہے، تحقیقاتی ٹیم حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں سے بھی ملاقات کرے گی۔گزشتہ روز انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلئے منعقدہ اجلاس میں وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے کہا کہ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کے لیے تمام ادارے فعال کردار ادا کریں۔انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ چلا کر ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف انتہائی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔وزیر اعظم کواجلاس میں انسانی سمگلروں کے خلاف اب تک لیے گئے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ میں بتایا گیا کہ جون 2023 اور دسمبر 2024 کے انسانی سمگلنگ کے واقعات میں متعدد انسانی سمگلر گرفتار ہو چکے ہیں۔متعدد سہولت کار سرکاری اہلکار برطرف اور کئی تادیبی کاروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔انسانی سمگلروں کے 500 ملین روپے سے زائد کے اثاثے اور مزید ضبط کرنے کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے انسانی سمگلروں کیخلاف سختی سے کارروائی کیلئے ایف آئی اے کو بیرون ملک انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ چلانے والے انتہائی مطلوب سمگلروں کی حوالگی کے لیے انٹرپول سے بھی تعاون حاصل کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں جبکہ اس حوالے سے ایف آئی اے میں افرادی قوت کی کمی کو بھی فوری طور پر پورا کرنے کے احکامات صادر کردیے ہیں۔وزیر اعظم شہبازشریف نے سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک سفر کرنیوالوں کی سکریننگ کا معیاری نظام مزید سخت کیا جائے جبکہ وزیر اعظم نے عوام الناس کی آگاہی کیلئے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کو غیر قانونی بیرون ملک سفر اور انسانی سمگلنگ کے بارے میں م¶ثر آگاہی مہم چلانے کی بھی ہدایات جاری کردی ہیں۔ 2023ءمیں بھی یونان کے ساحلی مقام پر تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی جس کے نتیجے میں درجنوں پاکستانی اپنی جان گنوابیٹھے تھے جبکہ اس سے قبل اٹلی کی ساحل پر بھی کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 100افراد جان کی بازی ہارگئے تھے ۔انسانی سمگلنگ کی روک تھام اور انسانی جانوں کے سوداگرسمگلروں کیخلاف جہاں حکومت نے سختی سے کارروائی کا آغاز کردیا ہے وہیں بحثیت قوم اجتماعی ہم سب کوانسانی جانوں کے سوداگر سمگلروں کیخلاف کردار اداکرنا ہوگا اور جہاں بھی ایسے انسانی سمگلر کسی نوجوان کی جان کا سوداکررہے ہوں فوراً اداروں کوآگاہ کرکے ان کوقانون کی گرفت میں لانا ہوگا ۔یہ ایساگھناﺅنا کام ہے کہ جس میں کئی سادہ لوح انسان اپنے بچوں کو انسانی سمگلروں کے ہاتھ اپنے ہی پیسوں سے موت کی وادی میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اورانسانی سمگلرزکایہ گروہ جھوٹے اور سہانے خواب دکھا کرپیسے بٹورکرمعصوم انسانوں کیساتھ کھلواڑکرتے ہیں ۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ بحثیت پاکستانی خصوصاً نوجوان جھوٹے اور سہانے خوابوں کے جھانسے میںنہ آئیں بلکہ ایسے ہرگروہ کیخلاف قانونی اداروں کی مددحاصل کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے