کالم

اوئے ایہہ باجی نئیں باجا اے

کچھ عرصہ سے ہماری نئی نسل مغرب کی اندھی تقلید میں مصروف ہے وہاں نوجوان نسل نے مغربی فیشن سے متاثر ہو کر سر کے بال لڑکیوں کی طرح بڑھانا شروع کر دیے کانوں میں بالیاں ہاتھوں کے ناخن بڑھا کر نیل پالش لگانا شروع کر دی ان کی دیکھا دیکھی ادھار مانگ کر شب و روز گزارنے والے غریب ممالک کے نوجوانوں نے بھی وہی فیشن اپنانا شروع کر دیا لڑکے اور لڑکیوں کی چال ڈھال میں فرق واجبی سا رہ گیا.اللہ نے جنہیں مرد بنایا وہ خاتون بننے کی کوشش میں مصروف ہو گئے اور جن کو اللہ نے خاتون بنایا وہ اپنی صنف کے برعکس نظر آنے کی خواہش میں دلچسپی لینے لگیں ایک واقعہ آ پ کو سناتا ہوں کچھ عرصہ پہلے ایک مصروف بازار میں دو نوجون جو ظاہرا خاتون کی جھلک دے رہے تھے کھڑے باتوں میں مشغول تھے کہ ایک ٹین ایج بچہ چلتا آ رہا تھا غالبا اس نے سڑک کراس کر کے جاناتھا اس نے خاتون نما لڑکوں کی پشت پر پڑے لمبے بالوں کو دیکھ کر کہاباجی راستہ دیں ان نوجوانوں نے جب مڑ کر اس بچے کو دیکھا تو اس نےبلند آواز میں کہاسوری اوئے ایہہ باجی نئیں باجا اے یہ جملہ کہہ کر وہ تیزی سے گزر گیا اور وہ خاتون نما نوجوان ہنستے ہوئے بھیڑ میں گم ہو گئے میں سوچنے لگا یہ وہ نسل ہے جنہوں نے ستاروں پر کمند ڈالنی ہے ابھی اپنی چٹیا سنبھال رہے ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو لہک لہک کر لڑکیوں کی طرح بات کرتے ہیں وہ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اللہ نے انہیں صنف نازک بنا کر نہیں بھیجابلکہ مرد بنا کر دنیا میں بھیجا مردانہ وجاہت اور خصوصیات عطا فرمائیں لیکن یہ تخلیق فطرت کے برعکس رہنا پسند کرتے ہیں مغربی ممالک میں تو مرد آپس میں شادیاں کرتے ہیں وہاں کا ماحول اخلاقی تقاضے سوچ اور عمل نہایت قابل اعتراض اور افسوسناک صورت اختیار کر چکے ہیں حضرت لوط علیہ السلام کے دور کا واقعہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے قرآن میں محفوظ کر دیا ہماری نوجوان نسل بھی جذبات میں بے قابو ہو کر مغربی معاشرتی تہذیب کی پیروکار بننا چاہتی ہے شکر کا مقام ہے کہ اکثریت ایسی نہیں اچھے اور برے میں فرق کو نوجوان طبقہ سمجھتا ہے اپنی صنف کے برعکس نظر آنے کی کوشش کبھی قابل تحسین نہیں ہوسکتی اللہ کی کرم نوازیوں پر نگاہ رہنی چاہیے تاکہ زبان پر شکر کے الفاظ رہیں مالک کی نوازشات کا شمار نہیں کیا جا سکتا اس کریم نے ہمیں لا تعداد نعمتیں عطا کیں ہم اس کا شکر ہی ادا کرسکتے ہیں اور ہمارے بس میں کیا ہے سوچ اور عمل کا معیار جب تک تبدیل نہ ہو اس وقت تک نتائج بھی مطلوبہ نہیں ہو سکتے گھریلو ماحول تربیت احتساب تعلیم انسان کی سوچ اور کردار میں نمایاں تبدیلیاں لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں بدقسمتی سے ایسے گھرانے بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جنہیں اللہ نے بے پناہ دولت دیکر آزمائش میں ڈال رکھا ہے نہ صرف کہ وہ خود بلکہ ان کی اولادیں مادر پدر آزاد رہنا پسند کرتی ہیں اگر ان بچوں کے شب وروز کا احتساب ہوتاہو تو یہ کبھی قابل افسوس اعمال میں ملوث نہ ہوں یہ بچے نشے کی حالت میں گھر لوٹتے ہیںتو اس وقت والدین انہیں کیوں نہیں پوچھتے کہ یہ کس حالت میں گھر آئے ہو نئے امیر سمجھتے ہیں کہ وہ اعلی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی مخلوق بن چکے ہیں یہی ان کی بد قسمتی ہے اپنی اولادوں کو خود اپنے ہاتھوں بربادی کی طرف دھکیلتے ہیں اور پھر مکمل بربادی کی صورت میں کف افسوس ملتے رہتے ہیں مجھے وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب گھر کے سارے افراد جلدی سو جاتے تھے اور فجر کی اذان پر بیدار ہو کر اللہ کی یاد میں مصروف ہو جاتے دن کا آغاز اسی طرح ہوتا نہ جرائم زیادہ تھے نہ قانون شکنی لوگ بے لوث ایک دوسرے کے کام آتے کسی کو مشکل میں دیکھ کر اس کی مدد فرض سمجھتے والدین اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتے تو پھر معاشرہ پرسکون قابل تعریف اور قانون پر عمل پیرا ہونے والے لوگو ں پر مشتمل ہوتا تھا دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا اب مسجد جانے والے کو مولوی کہہ کر بلانا اور قہقہ لگا کر تضحیک کر نا ماڈرن مین کی خصوصیت ہے معاشرہ تنزلی کا شکار ہے اب وہ اقدار نہیں رہیں اب وقت نے مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کو معیار بنا لیا ہے اسی وجہ سے اب والدین کے پاس اولاد سے شکائتوں کے انبار ہیں اولاد شروع ہی سے گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے قابومیں نہیں اگر والدین محبت شفقت کے ساتھ ساتھ احتساب کا عمل بھی جاری رکھتے تو معاشرہ اس قدر گراوٹ کا شکار نہ ہوتا ایلیٹ کلاس جن کے پاس ہر طرح کی سہولتیں ہیں ان کی اولادیں پیدائشی طور پر زندگی کی تمام سہولتیں ہونے کی وجہ سے آپے سے باہر ہیں نہ بڑے چھوٹے کا ادب ، احترام اور نہ ہی والدین کی نصیحت یا وقت پر سمجھانے کی اہمیت خودسر ضدی ہٹ دھرم نتائج کی پرواہ کیے بغیر عمل ان کی نمایاں خصوصیات ہیں ایسی نسل معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ کیسے بنا سکتی ہے اسلامی معاشرے کی بنیادیں مذہب کے اصولوں پر رکھی جاتی ہیں لوگ ان پر عمل کرتے ہیں اسلام سے پہلے عرب کی معاشرت کیا تھی تاریخ ایک گھناونا منظر پیش کرتی ہے لیکن اسلام آنے کے بعد وہ معاشرہ اک مثالی معاشرہ بن گیا لوگوں کی زندگی امن و امان کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی طرف چل پڑی مذہبی ماحول نے عربوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دی اسلام کے رہنما اصول تاقیامت نافذ رہنے والے ہیں ان پر جو معاشرہ بھی عمل کرے وہ ایک کامیاب معاشرہ کہلائے گا ہم اس وقت نہ ہی مکمل طور پر اسلامی اور نہ ہی مغربی تہذیبوں پر عمل پیرا ہیں اگر ہم دوسرے اسلامی ممالک پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی قلیل عرصے میں حیران کن ترقی اور خوشحالی کیسے ہوئی قانون کی حکمرانی بروقت انصاف معاشی میدان میں ہر ایک کے لئے مواقع تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور ملکی قوانین کے احترام کے ساتھ ان پر صحیح معنوں میں عمل ان حقائق نے ان ممالک کو قلیل عرصے میں مثالی معاشرہ بنادیاہم نے پچھتر برس گزار دیے دن بدن تنزلی کی طرف جھکاو رہا نہ معاشرہ مثالی نہ بنا سکے اور نہ ہی عوام کے جان مال اور عزت کومحفوظ بنا سکے ۔جرائم کی تعداد قتل ،غارت گری کچے اور پکے میں جرائم کی تخصیص دولتمندوں کی اپنے آپ کو ملکی قانون سے بالا تر سمجھنے کی سوچ اور عمل غریب عوام کی محرومیاں صاحب ثروت کی دن بدن کامیابیاں اور دیگر متعدد عوامل نے ملک کو ترقی تو کیا اسکی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے آج کے دور میں ملکی محافظوں کی جتنی شہادتیں ہو رہی ہیں سرحدوں کی جس طرح جانیں دے کر حفاظتیں ہو رہی ہیں اسکی مثال مشکل سے ملتی ہے ایک طبقہ ان شہیدوں کی قربانی کو نہ صرف دل و جان سے تسلیم نہیں کرتا بلکہ انکا احترام کرنے کے بجائے طرح طرح کے تبصرے کرتے ہیں ایسے لوگوں کی باتیں سن کر دکھ ہوتا ہے کیا ایسے لوگ ملک کے اداروں اور عوام کے مخلص ہیں یا ان کے مقاصد کچھ اور ہیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے وہ کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اللہ انہیں ہدایت دے وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ راتوں کی گہری نیندیں دن کو آرام سکون ان محافظوں کی بدولت ہے جو گرمی سردی بارش آندھی طوفان گولیوں کی بوچھاڑ میں ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ ہم سکون سے رہ سکیں ہمارے شب وروز محفوظ اور پرسکون رہیں ملک و قوم کے لئے شہید ہونے والے بھی تو کسی والدین کی اولاد ہیں گھر بار والے ہوتے ہیں ہمیں آباد رکھنے کے لئے ان کا تو سب کچھ برباد ہو جاتا ہے وہ قربانیاں دے رہے ہیں تاکہ ہم قائم رہیں ان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ تبصرے اور باتیں کرتے ہوئے ہمیں کچھ سوچنا چاہیئے وہ تمام شہدا جو ملک و قوم کے لئے اپنی جانوں کا نظرانہ دیتے ہیں ان کے احسان کا بدلہ ہم کبھی بھی نہیں اتار سکتے ہم تو رضاکارانہ طور پر بھی کسی ضرورتمند کو ایک خون کی بوتل تک نہیں دیتے لیکن وہ اپنی جان ملک و قوم کے لئے نچاور کرتے ہیں عظیم ہیں وہ لوگ جن کی زندگی کا مقصد ملک و قوم کی بے لوث خدمت ہے اور ہم میں سے ایسے بھی ہیں جن کی زندگی کا مقصد ملک کو لوٹتے رہنا ہے آج ان کی وجہ سے جس طرح ملک کی معاشی حالت ہو چکی ہے ان مٹھی بھر لوگوں کے ضمیر اگر زندہ ہوں تو انہیں سوچنا چاہیے کہ ملک ،قوم پر رحم کریں اب اس ملک کو مضبوط بنیادوں پر قائم رہنے کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیں اللہ اس ملک اور اس کی حفاظت کرنے والوں کے عزم کو مزید تقویت عطافرمائے اس کے دشمنوںکو برباد کرے تاکہ یہ ملک جو بے پناہ قربانیوں کے بعد حاصل کیا ترقی،خوشحالی کے ساتھ مثالی ملک بن کر ابھرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے