کالم

اٹھو رندو پیو جام قلندر

شکر ہے کہ ملک میں قبضہ گروپوں اور نیب زدگان کے باوجود کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ سر ابھار ہی لیتا ہے جن کی بدولت پاکستان کا نام دنیا میں جگمگ کرنا شروع کردیتا ہے ہمارے پاس ایسے ایسے ہیرے موجود ہیں جنہیں معمولی سے تراش خراش کے بعد دنیا کے افق پر چمکدار ستارہ بنا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم ہر ابھرنے والے ہیرو کو زیرو بنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود اپنے زور بازﺅں سے کوئی نیزہ پھینک کر صدیوں پرانا ریکارڈ توڑ کر پاکستان کا نام بلند کرکے ارشد ندیم بن جاتا ہے تو کہیں سے تین بہنیں سبل سہیل ،ویرونیکاسہیل اور ٹوئنکل سہیل اپنی چوٹوں کے باوجود جنوبی افریقہ میں مختلف ویٹ کیٹیگریز میں مجموعی طور پر چار گولڈ میڈل حاصل کرکے تاریخ رقم کردیتی ہیں اسی طرح جہانگیر خان نے6 بار ورلڈ اوپن ٹائٹل اور دس بار برٹش اوپن ٹائٹل جیت کرایک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بنا کر پاکستان کی عظمت کے جھنڈے گاڑ دیے انکے بعد اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جان شیر خان نے بھی 8 بار ورلڈ اوپن اور 6 بار برٹش اوپن جیت کر پاکستان کو عالمی نمبر 1 بنائے رکھاہماری ہاکی چار بار ورلڈ چیمپئن رہ چکی اور ابھی چند دن پہلے مقابلے میں جانے کا کرایہ تک نہ رکھنے والے نوجوان شاہ زیب رندنے کراٹے کومبیٹ ورلڈ چیمپین جیت کراپنی کامیابی قوم کے نام کرکے دنیا اپنے نام کرلی یہ سب لوگ ہمارے سپورٹس کے اداروں میں بیٹھے ہوئے مافیاز کی منافقت کے باوجود دنیا کو بتانے میں کامیاب رہے کہ کوئی ہم سا ہو تا سامنے آئے شاہ زیب رند کی کہانی سنانے سے پہلے ہاکی کا ذکر آیا ہے تو اسکی تباہی کے حوالہ سے رانا ثناءاللہ کا بیان ہی کافی ہے کہ 25سالوں سے قابض مافیا سے جان چھڑوانی ہے ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ کے میرے پروگرام راﺅنڈ دی گراﺅنڈ میں سابق اولمپیئن اور کپتان محمد ثقلین ،قمر ضیاءاور شہزادہ عالمگیر نے بھی کچھ اسی طرح کی دکھ بھری باتیں بتائیں کہ ہماری سپورٹس کی ایسوسی ایشنوں اور فیڈریشنوں میں نہ صرف قبضہ گروپ ہیں بلکہ نیب زدہ افراد بھی ہیں جن کی وجہ سے ہماری کھیلوں کا حشر نشر ہوگیا بلکہ ہم گھٹیا کام کرنے پر بین بھی ہوئے ہماری ایسوسی ایشنوں نے کھلاڑی باہر بھیجنے کے نام پر ویزے بیچے اور یہ کالک وہ ابھی تک اپنے منہ پر مل رہے ہیں میں ان سب افرادبھی کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے کھلاڑیوں کو پرموٹ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا خاص کربلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر یار محمد رند جنکی وجہ سے شاہ زیب رند بھی دنیا کو بتانے میں کامیاب ہوا کہ ہمارا ملک صرف معدنیات ،قدرتی وسائل اور خوبصورتی میں نمبر ون ہونے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کا بھی سلطان ہے شاہ زیب رند جب اپنی جیت کے بعد واپس پہنچا تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر سپورٹس کا کلچر نہیں ہے حالانکہ دنیا میں سب سے ٹیلنٹڈ لوگ پاکستان میں موجود ہیں لیکن حکومت نوجوانوں کی سرپرستی نہیں کرتی میں نے اپنے ذاتی خرچے پر تین مہینے تک امریکہ میں ٹریننگ کی میرا کوئی سپانسر نہیں تھا لیکن یار محمد رند نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیامیرے پاس امریکہ جانے کے لیے ٹکٹ کے پیسے نہیں تھے اورانہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا پہلا فائٹربن گیا ہوں جس نے یہ اعزاز حاصل کیاشروع شروع میں مجھے پاکستانی ہونے کی وجہ سے زیادہ پذیرائی نہیں دی گئی مگرجب میں نے یہ اعزاز جیتا تو دنیا حیران رہ گئی ابتدا میں دنیا کے بہترین کوچز نے کہا کہ یہ فائٹ نہیں جیت سکتاکیونکہ یہ دنیا کا مشکل ترین کھیل ہے کل کا یہ نوجوان بچہ اتنے بڑے فائٹر جن کی مہنگی ترین ٹریننگ کے بعد اس مقابلہ میں انٹری ہوئی تھی کیسے مقابلہ کریگاوہ مجھے نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن میں نے دو سال تک دن رات محنت کی اور صرف ایک ہی جذبہ تھا کہ پاکستان کا نام دنیا میں بلند کرنا ہے کئی کئی دن اور رات تک صرف مقابلے کےلئے تیاریاں کرتا رہا اور کہیں ہفتوں تک سو نہیں سکا دل اور دماغ میں صرف ایک ہی مقصد تھا کہ پاکستان کےلئے یہ ٹائٹل لے کر جانا ہے میں پہلا پاکستانی ہوں جو یہ اعزاز لیکر وطن واپس لوٹا ہوں میرے مقابلے میں ان ممالک کے کھلاڑی تھے جہاں پانچ سے آٹھ سال کے بچوں کو سالوں تک ٹرینک دی جاتی ہے اور یہ کام سکول لیول سے ہی شروع کر دیا جاتا ہے بلاشبہ میری اس کامیابی کے پیچھے پاکستانی قوم اور والدین کی دعائیں شامل تھیں میں دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیلنٹڈ لوگ پاکستان میں موجود ہیں لیکن یہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں جبکہ دیگر ممالک میں اسکول لیول سے ہی بچوں کو سکالرشپ دیکر مارشل ارٹ کا فن سکھایا جاتا ہے پاکستان میں ٹریننگ سٹاف اور بین الاقوامی کوچزکا نام ونشان بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میں ٹائٹل جیت گیا کیونکہ میں بڑے بڑے انعامات کے لیے نہیں لڑا بلکہ اپنی قوم کےلئے لڑا تھااگر حکومت پاکستان نوجوانوں کی سرپرستی کرے تویہ دنیا کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں فائنل میچ میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے ایسا لگا کہ میں ہار گیا ہوںمگر میرے دل اور دماغ نے شکست کو قبول نہیں کی میں نے گرنے کے باوجود آخری دم تک لڑنے اور مرنے کو ترجیح دی میرے مخالف نے ایک ایسا زوردار پنچ میرے سر پر مارا تھا کہ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں چلا گیا اورمیرے اوسان خطا ہو گئے مگر میرے دل اور دماغ نے کہا کہ میں پاکستانیوں کا نمائندہ ہوں پاکستان کے 24کروڑ عوام اس ورلڈ ٹائٹل کی راہ دیکھ رہے ہیں اگر میں ہار گیا تو قوم کو کیا منہ دکھاوں گامگر مجھے اللہ پاک نے طاقت دی قوم اور والدین کی دعاوں کے طفیل میں اپنے مخالف پر برتری حاصل کر گیامیرا دل اور دماغ بار بار کہہ رہا تھا کہ شاہ زیب تم نہیں ہار سکتے تم پاکستان اور بلوچ عوام کی امید کی آخری کرن ہو جسکے بعداللہ پاک کا کرم ہو گیا اور میں تیسرے راونڈ میں فاتح بن گیا زندگی اور موت کے درمیان سے یہ ٹائٹل جیت کر لایا ہوں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتااگر کوئی دوسرا ملک ہوتا تو کئی ہفتوں تک اس ملک میں اس ٹائٹل جیتنے کی خوشی میں جشن منایا جاتاکیونکہ یورپی ممالک اس ٹائٹل کو جیتنے کےلئے اربوں روپے اپنے لوگوں پر خرچ کرتے ہیں نوجوانوں کو کئی کئی سال تربیت دیتے ہیں اورمیں ایک متوسط خاندان سے تعلق اور وسائل نہ ہونے کے باوجود مارشل آرٹ کا ورلڈ ٹائٹل ان سے جیت لایا ہوں ۔مجھے امید ہے کہ جب تک پاکستان میںسردار یار محمد رند جیسے لوگ موجود ہیں اس وقت تک ہمارے نوجوان کچھ نہ کچھ کرکے اپنے ملک کا نام سربلند رکھتے رہیں گے اور انکی حوصلہ افزائی سے نوجوانوں کے اندر مایوسی کی بجائے امیدکی کرن چمکتی رہے گی شاہ زیب رند کی بے مثال کامیابی پر سردار یار محمد رند نے اسے ایک مربع زرعی اراضی دیکر بڑے بڑے سرمایہ داروں،جاگیر داروں ،سپورٹس فیڈریشنوںاور حکمرانوں کو بتادیا ہے کہ وطن سے محبت کرنےوالے کون ہیں اور لوٹ مار کرنےوالے کون ہیں اس موقع پر علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ساتھ ہی حضرت لعل شہباز قلندر کی نصیحت بھی یاد آگئی
طلوع سحر ہے شام قلندر،اٹھو رندو پیو جام قلندر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے