کالم

ایران-اسرائیل کشیدگی اور پاکستان کی حکمت عملی

مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی اور فضائی حملے محض دو ممالک کے مابین تنازعہ نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع تر عالمی بساط کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس میں پاکستان کا گھیرا اور خطے کی ازسرنو نقشہ کشی شامل ہو سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال جہاں ایران کیلئے ایک کڑا امتحان ہے، وہیں پاکستان کیلئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔2006 میں جب امریکہ نے ایران پر براہ راست حملے کی تیاری کی، تو پاکستان کے اصحابِ حل و عقد کو یہ احساس ہوا کہ افغانستان کے بعد اگلا نشانہ ایران اور پھر پاکستان ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے ایران کیخلاف اپنے بحری بیڑے کو بھی متحرک کر دیا تھا۔ ایران نے اپنی دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آبدوز سے تیز رفتار تارپیڈو میزائل کا کامیاب تجربہ کیا، جس نے امریکہ کے عزائم کو وقتی طور پر پسپا کر دیا۔ اس وقت امریکہ نے ایران کی دفاعی پیش رفت کا الزام پاکستان کی مدد پر عائد کیا، اور یوں پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کی کوششیں کی گئیں۔ امریکہ کی اس حرکت سے یہ موقف مزید قوت پکڑ گیا تھا کہ ایران کے بعد پاکستان بھی ممکنہ طور پر عالمی طاقتوں کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔موجودہ صورتحال بھی اسی تسلسل کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ایران پر دباؤ اور اسرائیلی حملے، بالواسطہ طور پر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ایک بین الاقوامی حکمت عملی کا مظہر ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی دانشمندانہ، اصولی اور محتاط سفارت کاری قابلِ تحسین ہے۔ایران اسرائیل حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان نے کئی کلیدی اقدامات کیے ہیں۔ مثلا اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، جناب عاصم افتخار احمد نے اسرائیلی جارحیت کو خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی پر اسرائیل کی کھلی مذمت کی۔ موجودہ حالات کی وجہ سے خطے میں پروازوں کی تبدیلی کے باعث کئی بین الاقوامی ایئرلائنز پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے پر مجبور ہوئیں، جس سے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔پاکستان نے عالمی برادری کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیکر بجا طور پر انسانیت کیلئے حفاظت اور سہولت فراہم کی۔ایران اور اسرائیل کے موجودہ تنازعہ میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ایران میں بعض منافقین اور جاسوس ایرانی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ ایرانی فوجی قیادت، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈرز اور جوہری سائنس دانوں پر اسرائیلی حملے اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دشمن کو ایران کے اندرونی معاملات کی گہری معلومات حاصل تھیں۔ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنصیبات پر حملے اسی اندرونی رسائی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان معلومات کی فراہمی میں بھارتی ریاست یا اس کے شہریوں کا ممکنہ کردار خارج از امکان نہیں۔ کیونکہ بھارت اسرائیل کا اتحادی ہے مگر ساتھ ہی اس نے ایران سے بھی تعلقات کی پینگیں بڑھا رکھی ہیں۔ چنانچہ بھارتی کثرت سے ایران میں آتے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل بھارت کے راستے ایران تک رسائی حاصل کرے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنی اندرونی سلامتی کو مستحکم کرے، بلکہ ایران کے ساتھ تکنیکی تعاون، تربیت اور معلوماتی تبادلے میں بھی معاونت فراہم کرے کیونکہ بھارت – اسرائیل اتحاد نہ صرف ایران بلکہ پاکستان کے لیے بھی خطرات کا حامل ہے۔پاکستان نے حالیہ کشیدگی میں ایک متوازن مگر اصولی موقف اپنایا ہے، جو اس کی تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سفارت کاری انتہائی متحرک، بھر پور اور کامیاب رہی۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ترک ہم منصب سے رابطہ کر کے مشترکہ سفارتی اقدامات پر گفتگو کی۔ خود وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے یکجہتی کا اظہار کیا اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے بات کر کے جنگ بندی کی کوششوں میں کردار ادا کرنے پر عزم و آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کو جارح ملک قرار دیا، جو ایک واضح اور جرات مندانہ قدم ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیانات نے عالمی برادری کی توجہ مسئلے کی سنگینی کی طرف مبذول کروائی ہے۔ اسکے پاکستان نے، اپنے شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے، اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے، ایران میں موجود اپنے زائرین کی سلامتی کیلئے ہنگامی کرائسس مینجمنٹ یونٹ قائم کیا، جو نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ پاک-ایران تعلقات کی مضبوطی کی بھی علامت ہے۔ ایران پاکستان کے ساتھ اس سلسلے میں ہر ممکن مکمل تعاون کر رہا ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدانخواستہ اگر ایران اس تنازعے میں کمزور ہوتا ہے تو اس کے فوری اور دور رس اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ مشرق وسطی کی غیرمستحکم صورتحال پاکستان کی مغربی سرحد کو مزید غیر محفوظ کر سکتی ہے، اور دشمن قوتوں کو پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کا نیا میدان فراہم کر سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں ایرانی صدر کا یہ مطالبہ کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف متحد ہوں، ایک بروقت صدا ہے، جسے پاکستان نے نہ صرف سنا بلکہ اس کے تقاضوں کو عالمی سطح پر اجاگر بھی کیا ہے۔ایران اسرائیل کی حالیہ جنگ میں جوہری تنصیبات پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے نہ صرف فوجی یا تزویراتی مسئلہ ہیں، بلکہ ان کے تابکاری اثرات انسانی زندگی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی شدید خطرہ ہیں۔ پاکستان، چین اور روس جیسے ممالک کو عالمی برادری کو متنبہ کرنا چاہیے کہ ایسی مزید مہم جوئی پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لا سکتی ہے۔ نیز ان ممالک کو اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ تابکاری اثرات کو روکنے کے لیے ایران سے ہر ممکنہ تعاون کرنا چاہیے۔پاکستانی عوام کی اکثریت ایران کیساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ ایسے میں پاکستانی ریاست کا موقف عوامی جذبات سے ہم آہنگ ہونے کیساتھ ساتھ قومی مفاد کا بھی مظہر ہے۔ پاکستان نے جس حکمت و تدبر سے اپنی سفارتی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنایا ہے، وہ نہ صرف بروقت ہے بلکہ اس کے دیرپا نتائج بھی ہوں گے۔ بات کو سمیٹنے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران-اسرائیل جنگ کو محض دو ممالک کا تنازعہ سمجھنا سادہ لوحی ہو گی۔ اس میں خطے کی تشکیلِ نو، طاقت کے توازن اور نظریاتی جنگوں کے آثار چھپے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنی سفارتی فعالیت کو جاری رکھے بلکہ داخلی سلامتی، خطے میں تزویراتی اتحاد، اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک کی مدد کے ذریعے اپنے قومی مفادات کا بھرپور تحفظ کرتا رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے