دنیاکی سب سے اہم ترین اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح، 25 دسمبر بروز اتوار1876 ءوزیر مینشن، نیو نہم روڈ کراچی میں پیدا ہوئے۔قائد اعظم نے ۱۱ ستمبر1948 ءکراچی میں ہیں ہی وفات پائی۔ قائد اعظم کا مزار کراچی میں واقع ہے۔قائد اعظم جب چھ سال کے ہوئے تو ان کو ابتدائی تعلیم کے لیے مدرسے میں داخل کرایا گیا۔قائد اعظم نے میٹرک”سندھ مدرسة الاسلام“ کراچی سے پاس کی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد1892 ءمیں لندن گئے۔ راقم بھی اس ادارے کاطالب علم رہا ہے۔ بیرسٹری کی تعلیم لند ن میں حاصل کی۔آپ 1896ءمیں بیرٹری کا امتحان پاس کر کے واپس کراچی تشریف لائے۔1902ءمیں آپ بمبئی تشریف لے گئے۔بمبئی میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔1905 ءمیں آپ آل انڈیا کانگریس میں شریک ہوئے۔مسلم لیڈروں نے 1906ءمیں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی۔مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیر حسین کے اصرار پر آپ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔قائد اعظم انگریزوں کو برعظیم سے نکالنے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔جب دیکھا کہ ہندو مسلمانوں سے نفرت اور تعصب کرتے ہیں اور انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد حکومت پر قبضہ کر کے مسلمانوں کو اکثریت کی بنیاد پر محکوم رکھنا چاہتے ہیںاور انگریز بھی اس سازش میں شامل ہیں تو آل انڈیا کانگریس سے علیحدہ ہو گئے۔قائد اعظم نے مسلمانوں کی وکالت کرتے ہوئے مشہور زمانہ چودہ نکات انگریز حکومت کے سامنے رکھے۔قائد اعظم کے یہ چودہ نکات اسلامیان ہند کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔انگریز نے پلان بنایا تھا کہ جانے کے بعد حکومت ہندوﺅں کے ہاتھ دے کر جائیں گے۔ہندوﺅں نے متحدہ قومیت کی مہم چلائی۔کچھ کانگریسی مسلمان متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی قومیت پر مولانا سید مودودی(رح) نے تحریریں لکھیں۔ بقول اقبالؒ شاعر اسلام:۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ترکیب میں قوم ِ رسول ہاشمی۔
ان تحریروں کو تحریک پاکستان کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے بر عظیم میں بہت زیادہ تعداد میں تقسیم کیا۔ قائد اعظم نے ہندوﺅں کو حکومت دے کر جانے کے خلاف مہم چلائی۔ قائد اعظم نے انگریزوں سے کہا کہ آپ نے مسلمانوںسے حکومت حاصل کی تھی۔ لہٰذا اخلاقاً مسلمانوں کوہی حکومت دے کر جائیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو آپ کو معلوم ہونا چاہےے کہ بر اعظیم میں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان رہتی ہیں۔یہ ایک ساتھ کبھی بھی نہیں رہ سکتے۔قائد اعظمؒ نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔ہندو اور مسلمان کا مذہب علیحدہ ہے۔ان کے رہنے سہنے کے طریقے، کھانے پینے کے طریقے علیحدہ ہیں۔ ان کی تہذیب تمدن ان کے اپنے اپنے قومی ہیرو ہیں۔ہندوﺅں کی آل انڈیا گانگریس کا مقابلے میں مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ ڈھاکا میں ۶۰۹۱ءمیں بنیاد رکھی۔۳۲ مارچ۰۴۹۱ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا کل ہند اجتماع لاہور میں منعقد ہوا۔اس اجتماع میںقرارداد پاکستان پیش ہوئی۔اس میں پاکستان کا مطالبہ رکھا گیا۔اس کے بعد پورے بر عظیم میں آزادی کے نعرے گوجنے لگے۔”پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ لا اللہ“۔ ” بن کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے پاکستان“۔” مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ“برعظیم کے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا اُن صوبوں کے مسلمانوں نے بھی اسلام کے نام پر پاکستان کی حمایت کی۔قائد اعظم نے جمہوری طریقے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو حاصل کیا۔ہم سب اپنے پیارے پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔
ہم لائے ہےں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا مےرے بچو سنبھال کے
پاکستان بن گیا تو قائد اعظمؒ نے ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے ایک ادارہ ”ری کنسٹرشن آف اسلامک تھاٹ“ بنایا۔ اس کا انچارج ایک نو مسلم علامہ اسدؒ کو بنایا۔ اس ادارے کا کام پاکستان کا اسلامی آئین بنانا تھا۔ سود کو ختم کرے اسلامی بنکاری شروع کرنی تھی۔ ملک کی تجارت کو اسلامی طرز پر چلانے کے اقدام کرنے تھے۔ جب تک قائد اعظمؒ زندہ رہے علامہ اسدؒ نے اس پر کافی کام کیا۔ مگر جب اللہ نے قائد اعظم ؒ کو اپنے پاس بلا لیا تو اُسی مسلم لیگ جس نے اسلام کے نام پرپاکستان بنایاتھا، کہنے لگے چودہ سو سالہ پرانہ اسلامی نظا م حکومت اس جدید دور میں ممکن نہیں۔ علامہ اسدؒ کو ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ کے ادارے سے ہٹا کر بیرون ملک سفیربنا دیا۔قائد اعظمؒ اس ادارے کو فنڈ مہیا کرنے کےلئے وزارت مالیات پاکستان کو ایک خط لکھا تھا۔جسے ایک قادیانی بیروکریٹ نے منزل پر پہنچنے نہیں دیا اوراپنے پاس دبا لیا۔علامہ اسد ؒ کے ابتدائی کام جو اس نے ملک کو اسلامی نظام حکومت پر چلانے کے لیے کیا تھا آگ لگا دی۔یہ خط مشہور اسلامک دانشور اوریا مقبول جان کے ہاتھ پرانے کاغذات میں ہاتھ لگا۔ جسے ایک ٹی وی پروگرام میں اوریا مقبول جان نے عوام کے سامنے پیش بھی کیا تھا۔اسی طرح قائد اعظمؒ نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سید ابو الا اعلیٰ مودودی ؒکی ذمہ داری لگائی تھی کہ وہ ہمیں بتائیں پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کیسے قائم کیا جائے۔ قائد اعظمؒ کے کہنے پر سید ابو الااعلیٰ مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے لگا تار کئی تقیری نشر کیں کہ اس پر عمل کر کے پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تقاریر اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں اور جماعت اسلامی نے ان تقاریروں کو ایک کتابی شکل میں بھی شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ جب مسلم لیگی حکمرانوں نے یہ کہا تھا کہ موجودہ جدید دور میں جودہ سو سالہ پراناظام حکومت نہیں چل سکتا تو سید مودودیؒ نے ملک کے بتیس (32) علماءکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ ان میں شیعہ سمیت پاکستان کے سب مکتبہ فکر کے علماءتھے۔ ان علماءنے مسلم لیگی حکمرانوں کے سامنے بائیس(22)نکات رکھے کہ ان پر عمل کر کے پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو سکتا ہے۔ اس پر پاکستان کے تمام مکتبہ فکر کے علماءمتفق ہیں ۔ مگر لیگی حکمرانوں کے دل میں کھوٹ تھا وہ ملک کو اسلامی ڈگھر پر چلانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
(……..جاری ہے)
سید مودودی ؒ کو جیل میں بند کر دیا۔ سید مودودیؒ اور پاکستان تمام علماءجس میں قائد اعظمؒ کے ساتھی اور اِن کی نماز جنازہ پڑھانے والے والے مولاناشبیر احمدعثمانی ؒ بھی شریک تھے ،نے پاکستان میں دستوری مہم چلائی ہوئی تھی۔ اس پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوا ب ز ادہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے آئین میں قراداد مقاسد شامل کی تھی۔ڈکٹیٹر ایوب خان نے پاکستان میں مسلمانوں کے عالی قوانین میں تبدیلی کر کے رائج کیے جو آج تک دستور میں شامل ہیں۔ جماعت اسلامی جو 1941 ءنے میں قائم ہوئی تھی نے پاکستان کے دستور میں قراداد مقاصد شامل ہونے پر ملکی سیاست میںحصہ لیا شروع کیا ۔ ملک میں اسلامی نظام کے لیے منظم جد وجہد شروع کی جو آج تک زور شور سے جاری ہے۔ اسی جد وجہد کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان کاموجودہ اسلامی آئین بنا ۔ اس آئین میں درج ہے کہ ملک پاکستان میں اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ اگر آئین میں کوئی بھی شک اسلام کے خلاف ہے تو اسے ختم کر سکتے ہیں۔ اس آئین کے تحت ایک اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی۔ جو قوانین کو اسلامی بنانے میں پارلیمنٹ کو سفارش کرے گی اور پارلیمنٹ قانون کو پارلیمنٹ سے پاس کرائے گی۔ مگر آج تک اس آئین پر عمل نہیں کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے قوانیں کو اسلامی بنانے کے کئی مسودے پارلیمنٹ کو بھیجوائے مگر آج تک نون لیگ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے حکمرانوں نے ان پر عمل نہیں کیا گیا۔بلکہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف بیرانی دباﺅ پر قانوں سازی کی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان بناتے وقت اللہ تعالیٰ اور برعظیم کے مسلمانوں سے جو وعدے کئے تھے کہ پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کریںگے۔ ان کے وعدوں پر برعظیم کے جن علاقوں پاکستان نہیں بننا تھا ان علاقوں کے مسلمانوں نے صرف اور صرف اسلام کے نام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں رائے دی تھی۔ قربانیاں برداشت کی تھیں۔ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی۔ لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں تھی۔ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے گھوٹے سکوں نے رائیگاں کر دیں اور ملک میں سیکولر نظام حکومت قائم کر دیا۔ پاکستان کی اسلامی اساس کی مخالفت میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کے نام پر پیپلز پارٹی بنائی۔ غدار وطن شیخ مجیب نے بنگالی قومیت کے نام پر پارٹی بنائی۔ مشرقی پاکستان میں قومیت اور لسانیت اور مغربی پاکستان میں سوشلزم کے نام پر الیکش میں حصہ لیا۔ آپس میںلڑ کر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ پاکستان جو اسلام اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں پر حاصل کیاگیا تھا، سوشلزم اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا۔ بھارت کے اہلکاروں نے سیکوزم کی بنیاد پر پاکستانی سیاستدانوں میں نقب لگا کر پاکستان کی اسلامی اساس سے ہٹا کر پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنا دیا۔ اندرا گاندھی نے اس تاریخی واقعہ پر کہا تھا کہ قائد اعظمؒ کے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میںڈبوادیا ہے اور مسلمانوںسے ہندوستان پرہزار سالہ دور حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔اس کے بعد بھی حکمرانوں کو شرم نہیں آئی اور قائد اعظمؒ کے دو قومی نظریہ کی مخالفت میں پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت کے مخالف میں بھارت کے سیکولر نظام حکومت پر چلتے ہیں۔ نواز شریف 13اگست2011 ءلاہور میں بھارتی دانشوروں کے اجتماع میں کہا تھا۔کہ ہم” مسلمان اورہندو ایک قوم ہیں۔ ہماری ایک ہی کلچر اور ایک ہی ثقافت ہے۔ہمارا کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔ درمیان میں ایک سرحدکا فرق ہے“۔ جبکہ قائد اعظم بانی پاکستان 23 مارچ1940 ءاسی لاہو رمیں قراداد پاکستان پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”کہ ہم مسلمان ہندوﺅں سے علیحدہ قوم ہیںہمارا کلچر، ہماری ثقافت،ہماری تاریخ، ہمارا کھانا پینا،ہمارا معاشرہ سب کچھ ان سے یکسر مختلف ہے“ نوا ز شریف کے لیے بھارت کے خفیہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ بھارت نے نواز شریف پر انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے اسے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اب پھر لگتا ہے کہ امریکہ کے کہنے پر نواز کو واپس لایا گیا ہے جو بھارت کے قاصد پورے کرے گا۔پیلز پارٹی کا تو منشور ہی سیکولرزم پر ہے ۔ بلاول زردادی چیئرمین پیپلز پارٹی کہتے ہیں ہم روشن خیال ہیں۔ بے نظیر نے تو راجیو گاندھی کے پاکستان دورے پر اسلام آباد کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ بھی ہٹا دیا تھا۔ بھارت نوازی میں سکھ آزادی پسندوں کی فہرستیںبھارت کے حوالے کی تھیں ۔ اسی بنیاد پر بھارت نے سکھ علیحدگی پسندوں کو چن چن کر ہلاک کا تھا۔پی ٹی آئی کے عمران خان نے بھی زبانی مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی باتیں کر کے وقت ضائع کیا۔ قائد اعظمؒ کے اسلامی اساس کی وارث صرف اور
3
صرف جماعت اسلامی ہے۔ ان نے قائد اعظم کے پاکستان کو بچانے کے لیے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ اس کی پاداشت میں بنگلہ دیش کی بھارتی پٹھو حکمران حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے مرکزی چھ رہنماﺅں کو پھانسنیوں پر چڑھا دیا۔ سیکڑوں کو جیلوں میں بند کر دیا دو قومی نظریہ اور قائد اعظم ؒکے اسلامی اساس پر قائم جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی ۔ مگر پھر بھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں دو قومی نظریہ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ موجودہ پاکستان میں اگر کوئی جماعت قائد اعظم کی جانشین ہی تو صرف جماعت اسلامی ہے۔ اب بھی موقعہ ہے کہ 8 فروری کے قومی انتخابات عوام قائد اعظمؒ کی جانشین جماعت اسلامی کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بھیجے تاکہ اسلام نظامِ حکومت قائم کر کے ملک میں امن وامان قائم کرے۔ بھارت میں موددی نے ہندتوا کے نام پر حکومت بنائی ہے تو کیوں نہ پاکستان میں اسلام کے نام پر حکومت بنے۔ جو بھارت کے مسلمانوں کی بشتی بان ہو۔ کشمیر کے مسلمانوں کے زخموں پرمرہم رکھے۔ کشمیر آزا کرائے۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے پاکستان میں جماعت اسلامی کی حکومت قائم ہو۔ پاکستانی عوام قائد اعظمؒ کو خراج تحسین ،اس کی جانشین جماعت اسلامی کو الیکشن میں جیتوا کر ہی پیش کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم ؒ کے یوم پیدائش 25 دسمبر پر یہ پاکستانی عوام کے نام پیغام ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین۔ پاکستان زندہ باد۔