Daily Pakistan

بانی پی ٹی آئی کا افغانستان دوستی کا عزم چہ جائیکہ

بانی پی ٹی آئی کا افغانستان دوستی کا عزم چہ جائیکہ

قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شمولیت، کے پی کے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور (پی ٹی آئی کے اہم لیڈر) کے افغانیوں کو نیشنلٹی دینے کا بیان اور سب سے بڑھ کر بانی پی ٹی آئی کا آج بھی افغانستان کو دوست ملک سمجھنا اور اس سے خیر کی امید رکھنا جبکہ افغانستان گذشتہ بیس پچیس سالوں سے بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را” اور پاکستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا اڈہ اور موجب بن چکا ہے، ایسے میں یہ بیانات اور طرز عمل کس طرف اشارہ کرتے ہیں؟ اسی طرح بانی جے یو آئی اور بھی حکومت پر افغانیوں کی ملک بدری پر سیخ پا نظر آتے ہیں۔ اور مزید جماعت اسلامی کی قیادت بھی اس فیصلے سے نالاں نظر آتی ہے۔ جب پاکستان کے دو صوبوں میں آگ لگی ہو اور جس ملک سے یہ آگ بھڑکائی گئی ہو اس کے بارے میں ایسے خیالات اس درجے کے قائدین کو پاکستان دوست یا دشمن سمجھا جائے یا فوج یا موجودہ سیاسی حکومت سے بغض میں وطن دشمنی یا پھر بین الاقوامی حالات اور بین الاقوامی سیاست کی سمجھ بوجھ کی کمی؟ ایسا رویہ، بیان بازی اور طرز عمل افسوسناک اور قابل مذمت بھی ہے۔
اس درجے کی قیادت کی یہ بیان بازی اور طرز عمل نہایت افسوسناک ہے کیونکہ ابھی تک بنوں کینٹ حملے اور سانحہ جعفر ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والے معصوم پاکستانیوں کے کفن بھی میسلے نہیں ہوئے۔ پاکستان کی ساری تاریخ گواہ ہے کہ ایسے کئی ہم موڑ پر پاکستانی قیادت کے اس ناعاقبت اندیشانہ طرز عمل نے پاکستان کو کئی دفعہ نقصان پہنچایا ہے۔ جنرل مشرف دور میں جب افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد کاروائیاں آسمان کو چھو رہی تھیں ایسے میں پاکستان کے کچھ قائدین یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دہشت گردوں کو دہشت گرد کہا جائے یا مجاہدین۔ اسی کشمکش میں کئی مذہبی اور سیاسی جماعتوں میں دہشت گردوں نے پناہ لی پھر سن دو ہزار آٹھ سے سن دو ہزار تیرہ تک ان دہشت گردوں نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اسی طرح پاک فوج کے آپریشن ” المیزان، ضرب عضب اور ردالفساد” پر بھی پاکستانی قوم میں یہ کنفیوژن باقی تھی جس کا وطن دشمن عناصر نہ بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اور پاکستان نے ان دہشت گردوں کے خلاف کئی سال تذبذب میں ضائع کر دیئے جس کی وجہ سے پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصاناٹھانا پڑا۔
کیا ہمارے قائدین اس بات سے واقف ہیں کہ جب سے حامد کرزئی اقتدار میں آیا تب سے افغانستان میں بھارتی ایجنسی را نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور باقاعدہ طور پر افغانی وزیر اس ایجنسی کے ساتھ ملکر پاکستان کے مغربی صوبوں (بلوچستان اور کے پی) میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث پائے گئے۔ اس کے ٹھوس شواہد کئی بار پاکستانی کے دفتر خارجہ نے افغانی قائدین اور بین الاقوامی ریادری کے ساتھ بھی شیئر کیئے جس کا تذکرہ مشرف دور کے وزیر خارجہ نے اپنی کتاب Neither Dove Nor A Hawk کے صفحات 278-279 پر بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ کیا ہمارے یہ قائدین جانتے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی تنظیموں کی پاکستان میں کاروائیوں کو را کوارڈینیٹ کرواتی ہے اور اس کام کے لیئے "انڈین ملٹری اکیڈمی دیرہ دون ” سے تربیت یافتہ افغانی فوج کے افسر بھی پاکستان میں یہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ یہ افغانستان سے کس بہتری اور خیر کی امید لگائے بیٹھے ہیں؟ ان قائدین کو شاید پتا نہیں کہ آج افغانستان میں تمام پاکستان دشمن دہشت گرد تنظیمیں اکٹھی ہو کر پاکستان پر دھاوا بول رہی ہیں اور یہ قائدین پاک افغان دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی قیادت اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر اور جماعتی اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر ون پوائنٹ ایجنڈے "پاکستان کی سلامتی ہر چیز پر مقدم” پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ جماعتوں کے قائدین اپنے فالوورز(جو کہ یقینا ایک بڑی تعداد میں ہیں)کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کیا یہ سیاسی اور ذاتی مفادات کی جنگ میں پاکستان کی سلامتی کو بھی پس پشت نہیں ڈال رہے؟ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان دشمن قوتوں کو ایک مضبوط اور منظم قوم کی طرح اپنے صفوں میں اتحاد کا پیغام دینا چاہئے ناکہ پاکستان دشمن قوتوں کے بیانیے کو تقویت۔ پاکستان پر سوشل میڈیا کے ذریعے دشمن نے ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور دو صوبوں میں دہشت گرد پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی اسمبلی میں پاکستان دشمن کے حق میں بیانات داغے جارہے ہیں۔ کیا اسی کام کے لیئے قائدین ہوتے ہیں کہ بوقت ضرورت اپنی ضد انا کا اسیر ہوکر ملکی مفادات کو نقصان پہنچائیں؟ ایک طرف جب افغانستان سے ڈیورنڈ لائن مٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور گریٹر بلوچستان اور آزاد بلوچستان جیسے نقشے میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں ایسے میں ہمیں سانحہ 1971 اور اس میں سیاسی قائدین کے کردار اور ہٹ دھرمی کو بھی یاد کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت اور دیگر عالمی قوتوں کے مکروہ کردار کو بھی۔ کیا یہ قائدین اس شعور سے عاری ہیں کہ پاکستان ہوگا تو یہ سیاست کر سکیں گے۔ آج دشمن پاکستان کو مٹانے کی فکر میں ہے پاکستان کے دو صوبوں میں انٹرنیشنل مکتی باہنی (کرائے کی قاتل تنظیمیں) آئے روز تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں اور بھارت افغانستان میں بڑے مزے سے بیٹھ کر یہ حملے کوارڈینیٹ کروا رہا ہے جبکہ افغانی حکومت پاکستان کے بار بار کے احتجاج کے باوجود بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ایسے میں افواج پاکستان کو چاہئے کہ پاکستان دشمنوں کا ہر جگہ پیچھا کریں اور اس سے پہلے کہ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو باقی پاکستانیوں کے لیئے یہ ضروری ہے کہ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ پاکستانی سلامتی کی اس جنگ میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔

میجر(ر)ساجد مسعود صادق

Exit mobile version