توانائی کی قلت خصوصا بجلی کی پیداوار تقسیم اور نرخ عشروں سے عوام کے مصائب و مشکلات میں اضافہ کرتے چلے آرہے ہیں ہر حکومت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کررہی ہے جن کے نتیجے میں لوگوں کو ریلیف ملے گا اور ان کی زندگی آسان ہوجائے گی لیکن کرپشن بدنظمی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے عام آدمی کی شکایات کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی گئیں اس وقت آئی پی پیز کے غیرمنصفانہ معاہدوں بجلی کی چوری مہنگے ایندھن کے استعمال اور اہل کاروں کی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے جاری ہونے والے بجلی کے بھاری بل صارفین پر بجلی بن کر گرے ہیں قبل ازیں خاندانوں کے اخراجات کی بڑی مدات میں تعلیم اور خوراک کے اخراجات شامل ہوتے تھے مگر اب بجلی اور گیس کے بل بھر نا گھریلوں صارفین کے لئے بنیادی اخراجات میں سر فہرست ہے اس کا نتیجہ دیگر مدات پر کیسے اثر انداز ہورہا ہے یہ انداز کرنا مشکل نہیں شہریوں کی اچھی صحت معیاری تعلیم ریاست کی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہوتی ہے مگر منہ زور مہنگائی سے نمٹنے والے پاکستانیوں کے لئے جسم وجان کا رشتہ بر قرار رکھنا اور اپنے بجلی گیس کنکشن کو منقطع ہونے سے بچانا دیگر معاملات کی نسبت زیادہ اہم ہوچکا ہے آمدنی اور تنخواہ دار طبقہ کیلئے جو نصف سے زیادہ آبادی کا حامل ہے روزمرہ اشیائے ضروریہ کا حصول مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے جبکہ غریب اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا بھاری بھرکم بجلی کے بلوں سے روشن گھروں کے چراغ بجھ رہے ہیں کاروبار ٹھپ اور کارخانے بند ہورہے ہیں زراعت جسے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے بری طرح متاثر ہورہی ہے مہنگی بجلی برآمدی اشیا کی لاگت میں ہر گزرتے دن اضافے کا باعث بن کر بین الاقوامی منڈی میں ان کی مسابقتی حیثیت متاثر کر رہی ہے جبکہ بعض صنعتوں کے بنگلہ دیش سری لنکا حتی کہ اردن تک میں منتقل ہونے کی شنید ہے اس سارے منظر نامے میں عوام کے لئے کیا ہے یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ سوال ہے جس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے لئے کچھ بھی نہیں سوائے مہنگائی بے روز گاری اور ذلت کے گیس بجلی کی قیمتوں میں کسی قدر کمی و بیشی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر جس طرح ہمارے ہاں توانائی کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کردیا جاتا ہے جسے اب یاد رکھنا بھی ناممکن سا ہوچکا ہے اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا توانائی کی قیمتوں میں آئے روز من مانے اضافے کے بجائے ضروری ہے کہ ان شعبوں کی جامع اصلاح کی جائے جس کے بغیر صرف صارفین پر اضافی بوجھ ڈالنے سے نظام کی ناکامیوں کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا یہی دیکھ لینا چاہیے کہ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران بجلی کی قیمت میں کتنی بار اضافہ ہوا مگر اس دوران بجلی کے گردشی قرضے بڑھ کر کہاں پہنچ گئے ہیں گزشتہ مالی سال کے اختتام پر گردشی قرضہ 2393 ارب روپے تجاوز کر چکا تھا بجلی کے ٹرانسمیشن اور ترسیلی نقصانات گزشتہ مالی سال کے مقابلے 11.77 فیصد سے بڑھ کر 18.31 فیصد ہوگئے اور 276 ارب روپے کا نقصان ہوا اسی طرح بلوں کی ریکوری کی شرح 92.4 فیصد رہی جس سے گردشی قرضے میں314ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات کی بات کی جائے تو بجلی چوری کے بعد بلوں کے نادہندگان سب سے بڑا مسئلہ ہیں اس وقت 900 ارب روپے سے زائد کے بقایا جات بلوں کی عدم ادائیگی میں پھنسے ہوئے ہیں اور بجلی چوری کے خلاف جارحانہ مہم کے باوجود گزشتہ مالی سال صرف 15 ارب روپے کی وصولیاں ہوئیں گیس کی شعبے کی حالت زار اس سے بھی گئی گزری ہے دراصل بہتر منیجمنٹ ہمارے توانائی کے شعبے کے استحکام کی بنیادی ضرورت بن چکی ہے خواہ یہ سرکاری دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کرلی جائے یا نجی شعبے میں توانائی کی چوری ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کا فرسودہ نظام اور کچھ با اثر سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی جانب سے عدم ادائیگی کی قدم روایت اس نظام کے دائمی امراض ہیں بجلی کی غیر معمولی مہنگائی میں نجی بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کا کلیدی کردار ہے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کمپنیوں کی شرائط پر یکطرفہ کئے گئے اور کمپنیوں کو ٹیکس ڈیوٹیز اور قوانین کی پیچیدگیوں سے آزاد کردیا گیا آئی پی پیز کے لئے تمام تر ملکی قوانین میں سہولتیں دی گئیں اور پاور کمپنیوں کو 100فیصد منافع پر معاہدے کئے گئے کمپنیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مختلف پانچ کرنسی میں چاہے تو کاروبار کرسکتے ہیں لیکن ان کو منافع اور ادائیگیاں ڈالروں میں کرنے کی گارنٹی دی گئی آئی پی پیز کے 100فیصد منافع کو یقینی بنانے کے لئے مقامی اور بین الاقوامی مہنگائی کو بھی ٹیرف میں شامل کیا گیا ہے نیپرا کی سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2024 کے مطابق بجلی کے شعبے میں حکومت کے ناقص فیصلوں اور بے ثمر پالیسیوں کا بوجھ صارفین پر پڑ رہا ہے گزشتہ سال بجلی کی اوسط پیداواری صلاحیت کا صرف 33فیصد برائے کار لایا جاسکا یوں 46ہزار میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا خمیازہ صارفین کیپسٹی پے منٹ کی مدد میں67 فیصد زائد ادائیگیاں کرکے بھگت رہے ہیں بجلی کی قیمت کے مقابلے میں کیپسٹی پے منٹ دو تہائی ہے اور یہی بجلی کی بھاری قیمتوں کی سب سے بڑی وجہ ہے آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدوں کے بجائے سستے پیدواری منصوبوں کے حوالے سے حکومتی سطح پر پالیسی کا فقدان پایا جاتا ہے جس اعتراف وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے بھی کیا ہے ان کا یہ کہنا کہ اگلے دس سال کے 17ہزار میگاوٹ کے مہنگے ترین منصوبے ہیں کیا میرے ملک کا شہری اتنی مہنگی بجلی خرید سکتا ہے بذات خود بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس میں دو رائے نہیں کہ گردشی قرضے توانائی کے شعبے کے لئے بھیانک صورت اختیار کرچکے ہیں مگر یہ بوجھ عوام کو دی جانے والی کسی رعایت کا نتیجہ نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کے ڈھانچے کے ان مسائل کی وجہ سے ہے جن سے عام صارفین کا کوئی تعلق نہیں لائن لاسز بجلی کے ترسیلی نظام کا دیرینہ مسئلہ ہے لیکن کوئی حکومت اسے حل نہیں کرسکی بجلی کے لائن لاسز میں پاکستان خطے میں سر فہرست ہے اگر لائن لاسز کے نام پر 30فیصد بجلی ضائع یا چوری ہوگی تو اس خسارے اور سرکلر ڈیٹ کے نام سے جمع ہونے والے بقایا جات کا خاتمہ نہیں ہو سکتا بجلی کے گردشی قرضوں کا حجم 2393رب روپے سے زائد ہوچکا ہے مگر قرض کا یہ پہاڑ کیسے بنا اس کے بنیادی اسباب کو سمجھے بغیر گردشی قرضے کم کرنے کی کوششیں کامیاب ہونے کا امکان نہیں بجلی کی چوری بل نہ دینے کی روش انتہائی مہنگے پیدواری وسائل پر انحصار اور بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی مخصوص نوعیت ایسے مسائل ہیں جن کے ہوتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں پرانے گرڈ سٹیشن کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے میں محدود سرمایہ کاری پیسوں کے ضیاع کے مترادف ہے بجلی کے شعبے کے مسائل کا حل جامع اصلاحات میں مضمر ہے 500 ارب روپے کی بجلی چوری در آمدی ایندھن سے چلنے والے گھسے پٹے منصوبے بند ہونے بعض پلانٹس کے اسکریپ ہو چکنے کے باوجود تنخواہوں اور مراعات کے اربوں روپے کے بوجھ سمیت دیگر امور بڑے اور فوری فیصلوں کی ضرورت کو اجاگر کر رہے ہیں توانائی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی سستی ہوسکتی ہے لیکن پہلے قدم کے طور پر اس معاملے میں بجلی کمپنیوں سے ہونے والے غیر منصفانہ معاہدوں پر نظرثانی مہنگے ڈیزل پیٹرول اور گیس کی بجائے پانی ہوا کوئلے اور سورج کی روشنی سے بجلی کی پیداوار بڑھانا اشد ضروری ہے حکومت نے اڑان پاکستان پروگرام کے تحت آئندہ پانچ برسوں کے دوران برآمدات اور قومی پیدوار میں اضافہ کرنا ہے تو یہ بجلی کے شعبے میں جامع اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں ہوگا مہنگی ترین توانائی اور ٹیکسز کے مسائل کو اگر حکومت زمینی سطح پر آکر نہیں سمجھے گی تو ان کا حل بھی نہیں نکال سکے گی۔