کالم

بلوچستان کی تشویشناک صورتحال

riaz chu

سکیورٹی فورسز بلوچستان کے امن، استحکام اور ترقی میں حائل رکاوٹ کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ بے شک پاک افواج کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے مگر ان کی باقیات اب بھی ملک کے کونے کھدروں میں موجود ہے۔ بلوچستان میں ایف سی کمپاﺅنڈ مسلم باغ میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف دہشت گرد پھر منظم ہورہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کے خاص نشانے پر ہیں۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ بلوچستان کی مجموعی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ صوبائی حکومت عوامی اعتماد کے شدیدفقدان کا شکار، اپوزیشن کے علاوہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی مایوس ہیں۔ صوبہ بدانتظامی اور کرپشن کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہے۔ایسے دکھائی دیتا ہے عوام بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ سڑکوں پرحکومت کی رٹ نظر نہیں آتی۔ سرکاری چھانیاں تک محفوظ نہیں۔ بلوچستان میں امن سی پیک کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ابھی دوروز قبل ہی امیرجماعت اسلامی جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لئے بلوچستان کے علاقے ژوب پہنچے تو ژوب میں نیو اڈہ کے مقام پر سراج الحق کی گاڑی کے قریب ایک خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑالیا۔ تاہم خود کش جیکٹ مکمل نہ پھٹنے کی وجہ سے حملہ آور موقع پر ہلاک ہو گیا۔ امیر معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ حملہ آور ہلاک جبکہ 7 افراد زخمی ہوگئے۔ افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قریبی علاقوں میں دہشت گرد تواتر سے کارروائیاں کر رہے ہیں جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ پاکستان کے خلاف اب بھی افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ اس دہشت گردی کی واردات کے پیچھے غیرملکی ہاتھ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش ا کے باعث ادارے اور عوام ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ہیں اور ملک عملاً خانہ جنگی کے دہانے پر آپہنچا ہے جس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا سکتے ہیں۔ سیاسی قیادتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ آپس کے اختلافات ختم کرکے انھیں معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ طے کرنے کی طرف آنا چاہیے تاکہ ہماری سکیورٹی فورسز یکسو ہو کر دہشت گردی کا خاتمہ کرسکیں۔ امیر جماعت اسلامی نے ملک کی مجموعی صورتحال کو بھی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستی وسائل حکمران اشرافیہ کی حفاظت اور بہتری کےلئے استعمال ہورہے ہیں جبکہ قوم کو لاوارث اور لاچار کردیا گیا ہے۔ نوجوان مایوس ہیں، بےروزگاری کا طوفان ہے۔ کروڑوں لوگ بدترین مہنگائی اور بدامنی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ لوگ گھروں میں محفوظ نہیں، صاف دکھائی دے رہا ہے ۔ حالات سنبھالنا حکمران سیاسی جماعتوں کے بس کی بات نہیں ،امن و امان کے قیام کےلئے ان کے پاس کوئی ایکشن پلان نہیں ہے۔ ملک میں عدالتوں کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے۔ قانون کی رٹ قائم نہیں ہورہی۔ کرپٹ، طاقتور اور ظالم حکمرانوں کا کوئی عدالت ، ادارہ احتساب نہیں کرسکا، اب عوام کو ہی ووٹ کی طاقت سے ہی ظالموں کا احتساب کرنا ہوگا۔ تمام مسائل کا حل اسلامی نظام ہے اور جماعت اسلامی ہی ملک کو اسلامی نظام دے سکتی ہے۔ حکومت بجٹ میں عوام کو ریلیف دے ، اشیا خورونوش ، بجلی پر سبسڈی بحال کی جائے۔ بلوچستان سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں ، گوادر کے مقامی افراد کو حقوق دیے جائیں ، گوادر معاہدہ پر فوری عمل درآمد ہو۔ ادویات ، پٹرول کی قیمتیں میں واضح کمی کی جائے۔ بولان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے۔پاکستانی فورسز بولان کے مختلف علاقوں میں بھاری تعداد میں عام آبادی کو محاصرے میں لے کر مختلف علاقوں میں پیش قدمی کررہے ہیں۔ جن علاقوں میں آپریشن جاری ہے ان میں بزگر، چلڑی، گمبدی، غربوگ، لکھڑ اور دیگر شامل ہیں۔آپریشن کا آغاز گذشتہ دنوں مارواڑ میں پاکستان فوج کے پوسٹ پر حملے کے بعد کیا گیا۔ مذکورہ حملے میںحکام نے گیارہ اہلکاروں کے ہلاکت اور آٹھ کے زخمی ہونے اور دو اہلکاروں کے گمشدگی کی تصدیق کی ہے۔حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حملے میں پوسٹ کو قبضے میں لیکر اسلحہ اور گولہ بارود کو قبضے میں لیا گیا جبکہ 25 اہلکار حملے میں ہلاک ہوئے اور جھڑپ میں تین سرمچار بھی شہید ہوئے۔ان علاقوں میں لوگوں کے اکثریت کا ذریعہ معاش زمینداری اور گلہ بانی ہے لیکن جاری آپریشنوں کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہونے کی وجہ سے لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں۔آپریشن کے پہلے روز جیٹ طیاروں نے مختلف مقامات پر بمباری کی جبکہ گن ہیلی کاپٹر آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔آپریشن کے دوران فائرنگ اور گھروں کو جلانیکی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ تاہم آمدورفت کے راستے بند ہونے اور مواصلاتی نظام کی بندش کے باعث ہلاکتوں اور گرفتاریوں کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔بلوچستان میں آزادی کےلئے برسر پیکار عسکریت پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے سربراہ گلزار امام عرف شمبے بلوچ راجی آجوئی سنگر نامی کالعدم تنظیم کی تشکیل میں بھی مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔ چار بلوچ عسکریت پسند گروپوں کی یہ مشترکہ تنظیم ( براس) بلوچستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے کئی بڑے حملوں میں ملوث رہی ہے۔ عسکریت پسندوں کے تازہ حملے ریاستی عمل داری کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے۔یہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر ہے اور تازہ حملوں کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان حملوں میں ملوث عناصر ایک مخصوص منصوبے کے تحت امن و امان کی صورتحال کوسبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں قیام امن کی صورتحال جب بھی خراب ہوتی ہے تو اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri