کالم

بھارتی یوم آزادی ،مگرکشمیریوں کےلئے یوم سیاہ

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ آج ہم نے گزشتہ روز اپنی 76ویںسالگرہ ملی جوش جذبے کے ساتھ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری آباد ہیں منا ئی۔ یہ رب کریم کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی انتھک جدوجہدکے ذریعے ایک آزاد اور خود مختار مملکت عطا کی اورہندو سامراج سے نجات دلائی۔دوسری طرف بھارت میں یہ دن آج منایا جا رہا ہے،لیکن مودی سرکار کے لئے ہزیمت یہ ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں موجود کشمیری باشندے اور دنیا کے دوسرے خطوں میں مقیم ان کے ہم وطن ہر سال 15 اگست بھارت کے یوم آزادی کو احتجاجا یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ تو پون صدی سے جاری کشمیر پر جابرانہ قبضہ ہے لیکن چار سال قبل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے بنیادی شہری حقوق بھی سلب کر لئے تھے۔ اس وقت سے کشمیریوں کی بھارت سے نفرت میں مزید شدت آگئی ہے۔ 15اگست کویوم سیاہ منانے کا مقصد بین الاقوامی برادری کو یہ پیغام دینا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے حق خود ارادیت سے انکار کر رہا ہے لہذا دنیا بطور ضامن اپنی قرار دادوں کی پاسداری کروائے۔ بھارت انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کا ایسا مرکزہے جہاں مسلم اقلیت اچھوتوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ بابری مسجد کی شہادت کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے کہ دہلی فسادات نے ہندوو¿ں فسادیوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مودی کا بھارت اسلام دشمنی میں بہت آگے ہے، یہاں شر پسند ہندوو¿ں نے مسلم اقلیت کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔مسلم کش فسادات بھارت کی دوسری پہچان ہے،ان فسادات میں حالیہ کچھ سالوں میں اس لئے تیزی آ گئی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گجرات فسادات کا ماسٹر مائنڈ مودی اب بھارت کے سیاہ سفید کا مالک بن چکا ہے جبکہ لبرل بھارت میں چھپائے پھرتاہے۔بھارت میں پہلی بار2014 میں ہندو قوم پرست جماعت کی حکومت اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے مسلم کش فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے توجب مقبوضہ جموں و کشمیر میں چار سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ وہ ایک بھیانک دور کا آغاز کر چکا ہے۔آزادی کیسی نعمت ہے اس کا جواب مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں سے پوچھیں اور مذہبی آزادی کیا چیز ہے یہ بھارت کے مسلمانوں سے پوچھیں جو اپنی مرضی سے قربانی جیسا فریضہ بھی ادا نہیں کر سکتے۔نریندر مودی حکومت نے بیک جنبش قلم مقبوضہ وادی کی ریاستی آزاد حیثیت کو ختم کر کے بھارت کے اندر ضم کرنے کی خطر ناک سازش کی ہے جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ایک بار پھرٹکراو¿ کی کیفیت سے دوچار ہیں۔اس کشیدہ تر ماحول میں بحیثیت ایک پاکستانی ہم پر یہ بھاری ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جو عہدوپیماں باندھے تھے ان کی تجدید کریں اور قائد کے فرمان اتحاد ،تنظیم اور یقیں محکم کو مضبوطی سے تھام لیں۔یہی وہ ایک ہتھیار ہے جس سے انگریز اور ہندو سامراج سے چھٹکارہ نصیب ہوا تھا اور آج بی جے پی جیسی متعصب اور انتہاپسند بھارتی حکومت کی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ہندوانتہا پسند حکمران طبقات روزِ اول سے پاکستان کی سالمیت کو خطرات سے دوچار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔جموں و کشمیر پر مکمل قبضہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اسکے لئے ہمیں قائدؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے ،یہ جدو جہد کشمیریوں کو اسکا استصواب کا حق دلانے کی ہے۔عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی جدوجہد ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وقت کے جبر نے یہ سازشیں نا کام تو بنا دیں مگر چند برس بعد ہی رام رام کے پجاریوں نے تقسیم ِہند کا زخم چاٹتے ہوئے نئی ریاست کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا ،اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ 65 میں ایک جنگی مہم جوئی کر ڈالی جبکہ 1971 میں ایک اور جنگ مسلط کر کے پاکستان کو دو لخت کیا۔مکار بھارتی حکمران کبھی چین سے نہیں بیٹھا۔اس نے کبھی بلوچستان میں تو کبھی قبائلی علاقوں میں سازشوں کے جال بچھائے۔ کہیں ٹی ٹی پی کی شکل میں، کہیں پی ٹی ایم کی شکل میں اور کہیں نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی ۔ آج پاکستان اگر مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے تو اسمیں جہاں اپنی کوہتاہیاں ہو سکتی ہیں وہاں پڑوسی ملک بھارت اس کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ابتدا ہی سے روڑے اٹکا رہا ہے۔دنیا میں شدت پسندی ہماری پہچان بنانے کے حربوں کے بعد اب افغانستان میں بیٹھ کر افواج پاکستان اور عوام میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان ہرگز ایک معمولی حیثیت رکھنے والا ملک نہیں ہے ،بس کمی ہے تو ایک حقیقی قیادت کی جو ذات سے زیادہ صرف پاکستان کا سوچے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حصول آزادی کے وقت ہم نے تمام تعصبات سے بالا تر ہو کرجس نصب العین کا اعلان کیا تھا، آج وہ فرقہ واریت اورصوبائیت کے عفریت سے دوچار ہے۔ ہمارے اپنے ہی لوگ دشمن کا بیانیہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ اپنے نظریات دوسروں پر زبردستی ٹھونسنے اور مفادات کی سیاست نے ہمیں چاروںا طراف گھیر رکھا ہے۔ ہمارا دشمن ایک منظم سازش کے ذریعے ہمارے ہی لوگوں سے ہمارے خلاف زہر اگلوا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ دشمن کے یہ سانپ اب بھی اپنے پھن پھلائے اندرون ملک اور بیرون ملک مختلف کلوں میں نظر آتے ہیں۔ جب بھی ہمارا دشمن ان کو کوئی ہڈی ڈالتا ہے سب پاکستان کے وجود کو ڈسنا شروع کردیتے ہیں۔ دشمن کے سدھائے یہ پالتومختلف شکلوں میں ہمارے معاشرے میں زہر گھول رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی مذموم کارروائیاں اصل میں پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ ظاہر کرنے کا ایک مذموم پلان تھا جو ناکام بنا دیا گیاہے ۔ ہمارے کشمیری بھائی اس دن کو بلیک ڈے کے توطور پر منانے کا کا پورا حق رکھتے ہیں۔ریاست کا ایک ایک شہری آج بھارتی فوجی قبضے کیخلاف نفرت کا اظہار اور احتجاج کررہا ہے کیوں کہ بھارت نے کشمیری عوام کی مرضی و منشا کے بر خلاف مقبوضہ ریاست پر قبضہ کر کہ کشمیری عوام کے تمام حقوق پامال کیے۔ بھارت نے گزشتہ پچھتر برسوں میں ظالم فوجیوں کی سفاکیت، کالے قوانین کے ظالمانہ استعمال سے پوری ریاست کو ایک جیل میں تبدیل کردیا ہے پوری ریاست کو محاصرے میں لے کر ظلم و استبداد کا بازار گرم کررکھا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے