کالم

بھارت میں شمالی و جنوبی ریاستوں کے درمیان بڑھتی تقسیم

بھارت میں مودی دور حکومت میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کے علاوہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی عدم مساوات کی وجہ سے شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم ملک کےلئے بطور وفاق ایک سنگین خطرہ ہے۔ بھارت کی جنوبی ریاستیں مودی کی بھارتی حکومت پر مالیاتی پالیسیوں، حلقہ بندی کے خطرات اور ثقافتی یلغار کے ذریعے انہیں منظم طور پر پسماندہ رکھنے کا الزام عائد کر رہی ہیں۔ مودی حکومت کی ہندو تو ا پالیسیوں کے نتیجے میں جنوبی ریاستوں کو خدشہ ہے کہ اگر صرف آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی گئیں تو ان کی وفاق میں پارلیمانی نمائندگی کم ہو جائے گی۔ بھارت کی جی ڈی پی میں غیر متناسب حصہ ہونے کے باوجود تمل ناڈو اور کیرالہ جیسی ریاستیں شمالی ریاستوں کی پارلیمانی نشستیں کم ہو سکتی ہیں۔ بی جے پی نے طویل عرصے سے اپنے ہندوتوا ایجنڈے کے ذریعے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے اور ترقی پسند نظریات کو دبانے کی کوشش کی ہے جو جنوبی ریاستوں کے سیاسی منظر نامے پر حاوی ہیں۔ ہندو بالادستی کا ہندوتوا نظریے کی جڑیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں ہیں، یہ نظریہ جنوبی ریاستوں میںرائج سیکولر اور تکثیری اقدار سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارت میں 100سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ دراصل اپنی ان لا تعداد تنظیموں پر پردہ ڈالنے اور حقائق چھپانے کے لئے وہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے۔بھارت کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سمیت بھارت میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے جن انتہا پسند تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی ان میں پیپلز گوریلا آرمی، پیپلز وار گروپ نیکسلائٹس، تامل نیشنل ٹروپس، آصف رضا کمانڈو فورس رن ویرسینا ، ایل ٹی ٹی ای وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے باوجود علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں انڈر گراو¿نڈ جاری رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ، بہار، مغربی بنگال، مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔ گورکھا ٹائیگر فورسز اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں سے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے خود پریشانی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکام اپنے ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کاروائیوں کے اصل حقائق تک پہنچنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، بابری مسجد کے انہدام، گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماو¿ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران ماو¿ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔اسی طرح بھارتی پنجاب 1984کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو اندرون وبیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی سکھوں کا ایک مسلح گروپ بھارت سے علیحدہ ایک الگ ریاست خالصتان کے حصول کیلئے برسر پیکار تھا جس کی سرکوبی کیلئے اندرا گاندھی نے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین گولڈن ٹیمپل میں فوج کے ایک سکھ جرنیل کو کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔بھارتی حکومت کے ایمائ پربھارتی فوج نے سکھوں کے انتہائی مقدس مذہبی مقام پر دھاوا بول کرجہاں ”دربار صاحب ” کی بے حرمتی کی وہاں عبادت کیلئے آئے ہوئے چار ہزار سے زائد سکھوںسمیت سکھوں کے مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرہ کوعلیحدگی پسند قرار دیتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے خالصتان تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے کا اعلان کر دیا۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کرکے بہر حال دنیا کو ایک پیغام ضرور دیدیا کہ وہ اب ایسے بھارت کے ساتھ رہنے کو قطعی تیار نہیں جہاں سکھوں کے جان ومال کے ساتھ ان کی مذہبی عبات گاہوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہاہو۔اندرا گاندھی کے قتل پردن دیہاڑے حکومتی مشینری کے سامنے جس طرح ہزاروںسکھوں کو زندہ جلادیاگیاان مظالم کی المناک داستان اب بھی کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ ہے جو بھارتی بنئے کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لہذا وہاں بھی علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہے۔بھارتی حکام سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور اپنے بیانات میں ملک کے اندر دہشت گردی انتہا پسندی مذہبی جنونیت کو تسلیم کر چکے ہیں اور بھارت کے تقسیم ہونے کا خدشہ محسوس کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے