Site icon Daily Pakistan

بھارت میں مسلم نسل کشی پر خلیجی ممالک کی تشویش

riaz-chuadary
گلف کوآپریشن کونسل کے مسلم اور غیر مسلم ممبرخلیجی ممالک جن میں سعودی عرب ، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور عمان شامل ہیں ، نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ نارو ا سلوک پر تشویش کا اظہارکیا ہے ۔ ان ممالک نے ایک اجلاس میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف بی جے پی حکومت کے این آر سی، این پی آر ، سی اے اے جیسے بے رحمانہ اور متعصبانہ بل پاس کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی بھارتی شہریت ختم کرنے کا بل ، بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ اگر یہ قوانین ختم نہ کئے گئے یا ان کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو سعودی عرب بھارت کو سپلائی کیا جانے والا 83 فیصد خام تیل بند کر دے گا ۔ اسی طرح ایران نے بھی بھارت کو تیل کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ ترکی نے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات پر اپنا کردار ادا کریں ۔ اگر اقوام متحدہ کوئی نوٹس نہیں لیتی تو ترکی نئی اقوام متحدہ بنانے بارے سوچ سکتا ہے ۔ بھارت کےلئے یہ صورتحال انتہائی کٹھن ہے ۔ سعودی عرب نے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی پراو آئی سی کے 57 مسلم ممالک کا اجلاس بلانے اور ان ممالک میں بسنے والے ہندووَں کو واپس بھارت بھیجنے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ اقلیتوں کو بھارت میں اس سے پہلے اپنی بقا کے خدشات اتنے شدید نہ تھے جتنے موجودہ بی جے پی حکومت نے وزیراعظم مودی کی قیادت میں پیدا کر دیے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارت سے تمام اقلیتوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ یہ مذہبی انتہا پسند نہ صرف اقلیتوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں بلکہ نچلی ذات کے ہندووَں سے بھی بھارت کو پاک کرنا چاہتے ہیں ۔ کئی مقامات پر مسلمانوں ، مسیحیوں اور سکھوں کے علاوہ دلت افراد کو ہندو تشدد پسند ہجوم کا سامنا کرتے ہوئے جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں اور اس سلسلے میں قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے رہے ۔ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی شرح کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر عام ہندووَں کو اپنے ملک میں اقلیت بن جانے کے امکان سے خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت ان بے بنیاد خدشات کو دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی اور نہ ہی حکومت حجاب کرنے والی معصوم مسلمان طالبات کو ان کے ہم جماعتوں کی ہراسانی سے محفوظ رکھ پا رہی ہے ۔ بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سر توڑ کوشش ہے کہ بھارت کو ہندو بنیاد پرست ریاست میں بدل دیا جائے ۔ اگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا تو بھارتی مسلمانوں کی اکثریت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ وہ دوبارہ سے ہندو بن جائے ۔ بھارتی مسلمان اور دینی مدارس کا تحفظ اور بقا سیکولر ازم میں ہے ۔ چنانچہ سب بھارتی سیکولر ازم کی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ ملک میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کےلئے زمین تنگ کی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف سرکار اور انتہا پسند ہندو ایک ہیں ۔ غریب اور بے قصور مسلمانوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ جان و مال دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ مودی کے پہلے دور 2014 سے لے کر اب تک مسلمانوں کو تنگ کرنے کے بہت سے بہانے گھڑے گئے ۔ کبھی گھر واپسی مہم ، کبھی لو جہاد، کبھی سی اے اے تو کبھی این آر سی کے ذریعے انہیں تنگ کیا گیا ۔ اب مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہتھکنڈہ ہجوم زنی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ اب تک تقریباً 250 مسلمان اسی ہجوم زنی اور ہجومی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں مگر قانون بے بس ہے اور ایسے سماجی مجرمان کو سزا دینے سے قاصر ہے ۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو کبھی بھی اور کسی بھی وقت آپ پر جھوٹا الزام لگا کر آپ کو ہجوم زنی کا شکار بنا لیا جائے گا اور آپ اپنی جان گنوا بیٹھیں گے ۔ کوئی پولیس، کوئی قانون ان مجرموں ، درندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ اگر قانون اپنا کام موَثر طریقے سے کرتا تو ماب لنچنگ کا سلسلہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا ۔ بھارت میں حجاب کا تنازعہ جہاں ملکی سپریم کورٹ پہنچ گیا ۔ وہیں پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی ناظم الامور کو وضاحت کے لیے طلب کیا ۔ ملالہ یوسف زئی کے بعد اب فرانسیسی فٹ بالر پال بوگبا نے بھی حجاب مخالفین پر نکتہ چینی کی ہے ۔ بھارت کے جنوبی صوبے کرناٹک میں حجاب کے تنازعے کے حوالے سے ایک مسلم طالبہ کو شدت پسند ہندووَں کی جانب سے پریشان کیے جانے کے معاملے پر وضاحت کے لیے پاکستان میں بھارت کے ناظم الامور کو پاکستانی دفتر خارجہ طلب کیا گیا ۔ بھارت کے ناظم الامور سریش کمار نے حجاب تنازعے کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کے تمام الزامات کی تردید کی اور انہیں بے بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ بھارت;3939;ایک سیکولر ملک‘‘ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت متعدد سینیئر وزراء نے حجاب تنازعے پر بھارت سرکار کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت میں مسلم لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے کوشش کی جا رہی ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ ملالہ یوسف زئی نے اس واقعے پر ٹوءٹ کرتے ہوئے لکھا تھا،;3939;کالج تعلیم اور حجاب میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لیے مجبور کر رہا ہے ۔ لڑکیوں کو حجاب میں اسکول جانے سے روکنا خطرناک ہے ۔ بھارتی رہنماؤں کو مسلم خواتین کے ساتھ تفریق کو روکنا چاہیے ۔ ‘‘سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کا انصافی سسٹم بالکل اپاہج ہو چکا ہے;238; بھارت کے مہذب اور عزت دار شہریوں کے ساتھ بدسلوکی، نا انصافی، ظلم اور تشدد کب تک کیا جائے گا اور یہ کس کے اشارے یا شہ پر کیا جا رہا ہے ۔ مجرموں کے خلاف ایمانداری سے منصفانہ کاروائی کا جو حلف برسراقتدار لوگوں اور پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں نے لیا ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کب تک ہوتی رہے گی;238; ]]>
Exit mobile version