کالم

بی ایل اے،ٹی ٹی پی اور فتنہ الہندوستان

ایک جانب خضدار میں معصوم بچوں کو بربریت اور سفاکی کا نشانہ بنایا گیا دوسری طرف ہر سطح پر بھارت مختلف سطحوں پر یہ مکروہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔اسی تناظر میں مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را” کی سرگرمیوں نے بین الاقوامی قوانین اور علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔یاد رہے کہ ایک حالیہ واقعے میں، بھارتی سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ لشکرِ طیبہ سے منسلک ایک سابق عسکریت پسند، سیف اللہ خالد، کو پاکستان کے صوبہ سندھ میں نامعلوم مسلح افراد نے قتل کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق، سیف اللہ ماضی میں ناگپور، رامپور اور بنگلور میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہا، لیکن بعدازاں اس نے عسکریت ترک کر کے پرامن زندگی اختیار کر لی تھی۔واضح ہوکہ سیف اللہ کی ہلاکت اگرچہ بظاہر ایک انتقامی کارروائی کے طور پر پیش کی گئی، لیکن اس کا اصل پہلو ایک اور بھارتی غیر قانونی اور سرحد پار آپریشن کو بے نقاب کرتا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ قتل بھارتی ایجنسیوں یا ان کے پراکسی عناصر نے کیا ہے اور یہ ایک واضح مثال ہے کہ بھارت بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کو بالکل نظرانداز کرتے ہوئے دیگر ممالک کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں پراکسیز کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں جیسے بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، سندھودیش ریولوشنری آرمی (SRA) اور تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) جیسے گروہ بھارتی سرپرستی میں پاکستان کے مختلف حصوں میں بدامنی پھیلانے میں ملوث رہے ہیں اور ان گروہوں کو مالی، عسکری اور خفیہ معاونت فراہم کرنا بھارت کی جانب سے منظم انٹیلی جنس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا ہے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ تمام سرگرمیاں نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ریاستی خودمختاری کے بنیادی اصولوں کو بھی پامال کرتی ہیں حالانکہ پاکستان متعدد بار عالمی برادری کے سامنے ثبوت رکھ چکا ہے کہ بھارت کی جانب سے ایسی سرگرمیاں کسی بھی ذمہ دار ریاست کے شایانِ شان نہیں ہیں۔مبصرین کے مطابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومتِ پاکستان نے شدت پسند عناصر کو قومی دھارے میں واپس لانے کےلئے جامع ڈی ریڈ یکلائزیشن پروگرامز کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت متعدد سابق جہادیوں کو عسکریت ترک کر کے پرامن زندگی گزارنے کا موقع دیا گیا۔ سیف اللہ خالد جیسے افراد انہی کوششوں کا حصہ تھے جنہوں نے عسکریت پسندی کو خیرباد کہہ کر ایک نئی زندگی شروع کی۔تاہم بھارت کی سرحد پار ٹارگٹڈ مہم ان افراد کو سزا دیتی ہے جنہوں نے تشدد کا راستہ ترک کیا ہوتا ہے، جس سے پاکستان کی ریاستی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ جب ریاست ایسے افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عوام کا اعتماد ڈی ریڈیکلائزیشن پالیسی پر متزلزل ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف سابق عسکریت پسندوں کےلئے خطرناک ہے بلکہ ان کے خاندانوں میں بھی تشویش پیدا کرتی ہے کہ وہ دوبارہ کسی ہدف کا نشانہ بن سکتے ہیں اورایسے ماورائے عدالت قتل اکثر انتقامی جذبات کو جنم دیتے ہیں ۔ یاد رہے کہ متاثرہ خاندان اور حلقے ریاست اور اس کے نظامِ انصاف سے مایوس ہو کر دوبارہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ یوں ایک ایسا سائیکل جنم لیتا ہے جو دہشت گردی سے شروع ہو کر دوبارہ دہشت گردی پر ختم ہوتا ہے، اور اس کی جڑیں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کی غیر قانونی سرگرمیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔مبصرین کے بقول بھارت کی سرحد پار کارروائیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کی خلاف ورزی ہیں، جو کسی بھی ریاست کو طاقت کے استعمال یا اس کے خطرے سے دوسرے ممالک کی خودمختاری، علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کو نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، جنیوا کنونشنز کے اضافی پروٹوکول I کے آرٹیکل 48 اور 51 شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں، جن کی بھارتی کارروائیاں کھلی خلاف ورزی کرتی ہیں۔یاد رہے کہ اس ضمن میں بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) بھی انسانی جان کے تحفظ اور منصفانہ عدالتی عمل کی ضمانت دیتا ہے تاہم بھارت ان تمام معاہدوں کا دستخط کنندہ ہونے کے باوجود ان کی خلاف ورزی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے، جو نہ صرف بھارت کے بین الاقوامی تشخص پر سوالیہ نشان ہے بلکہ عالمی قوانین کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کا رویہ ایک مکمل سرکش ادارے کا ہے جو ریاستی سرپرستی میں ماورائے عدالت قتل جیسے اقدامات کرتا ہے۔ چاہے وہ پاکستان میں سیف اللہ جیسے افراد کا قتل ہو یا کینیڈا میں خالصتان حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت، بھارت مسلسل بین الاقوامی سرزمین پر طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ میں بھی بھارتی ایجنٹوں کی کارروائیوں کی کوشش بے نقاب ہوئی، جس سے بھارت کا چہرہ عالمی سطح پر غیر ذمہ دار اور قانون شکن ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے ۔یاد رہے کہ بھارت کی غیر قانونی سرحد پار کارروائیاں نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ عالمی امن کےلئے بھی خطرہ ہیں۔ایسے میں عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے م¶ثر اقدامات کرے تاکہ عالمی قوانین کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے اور خطے میں پائیدار امن قائم ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے