افرےقہ پر ططسی قوم کی حکومت اور ےورپ مےں تحرےک احےائے علوم کے درمےان دو ہزار سال کا عرصہ حائل ہے ۔اس عرصے کے دوران صرف دو عظےم تارےخ دان پےدا ہوئے اور مزے کی بات ےہ کہ وہ دونوں بر بر تھے جو جنوبی افرےقہ مےں اےک دوسرے سے اےک سو مےل کے فاصلے پر پےدا ہوئے ۔دونوں مختلف مذاہب کے راسخ العقےدہ پےروکار تھے ۔دونوں نے اپنے ارد گرد سےاسی بحرانوں سے دلبرداشتہ ہو کر تارےخ کے معنی تلاش کئے اور اسے اےک نئی فلسفےانہ جہت عطا کی ۔سےنٹ آکسٹائن سلطنت روما کی تباہی سے متاثر ہوا اور اس نے ”سٹی آف گاڈ“ لکھی اور اپنی دےگر تحرےروں پر الجزائر مےں بےٹھ کر نظر ثانی کی ۔اس موقع پر بھی بےرونی حملہ آور شہر کے دروازے پر بےٹھے تھے ۔اس سے تقرےباًاےک ہزار سال بعد اےک عظےم افرےقی نے جنم لےا جس نے تارےخ کو نئے معنی عطاءکئے ۔مغرب نامی ملک کو خانہ بدوشوں اور سےاہ موت نے برباد کر دےا ۔اےک وقت تھا کہ بحر روم سے لےکر بحر اسود کا تمام آباد علاقہ مغرب کا حصہ تھا ،اب وہ سارا علاقہ وےران صحرا ہے ۔ابن خلدون نے بر بروں کی تارےخ لکھی جس کا آغاز اس جملے سے کےا کہ زمےن خدا تعالیٰ کی وراثت ہے اور وہی سب سے اچھا وارث ہے ۔دےگر بہت سے عظےم تارےخ دانوں کی طرح ابن خلدون بھی قنوطےت پسند تھا ۔اس نے سےاست مےں حصہ لےنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا لےکن سےاست نے اس کے مشاہدے کو وسےع اور اس کی سوچ کے دھارے کو صےقل کر دےا تب اس نے بھی سقراط اور ارسطو کی مانند نوجوانوں کا مدرس بننے کی راہ اختےار کی مگر مذکورہ ہر دو فلسفےوں کی مانند اس کے شاگرد بھی وےسے ہی ثابت ہوئے چنانچہ تےونس کے شاہی دربار سے لےکر غرناطہ اور مراکش تک جہاں گشتی کے بعد اپنے قلعے مےں گوشہ نشےن ہو گےا اور کامل تےن برس تک عالم اسلام کی تارےخ کا معائنہ کےا ۔اس نے دےکھا کہ سابق تارےخ دان مبالغہ آرائی مےں تو ےقےنا عروج پر تھے مگر ان مےں فلسفےانہ منطق کی سوجھ بوجھ ناپےد تھی اور تارےخ کے دھارے کو اپنے احاطہ فکر مےں لانے سے قاصر رہے تھے ۔چنانچہ ابن خلدون نے فےصلہ کےا کہ تارےخ کو اےک نئے زاوےے سے مرتب کےا جانا چاہےے جس مےں گہرائی بھی ہو گےرائی بھی ۔جب کہ پوری کائنات گردش مےں ہے تو ہمےں ےہ بھی دےکھنا چاہےے کہ کےا اس سے اس کی نفرت مےں کوئی تبدےلی تو رونما نہےں ہوتی ؟ کےا دنےا مےں کوئی نظام اور نئی ترتےب تو پےدا نہےں ہو رہی ؟لہذا اگر آج ہمےں تارےخ لکھنا ہو تو ہمےں پوری دنےا کے حالات مد نظر رکھنا ہوں گے اور تارےخ دان کو رسم و رواج اور عقائد مےں تبدےلےوں کو بھی قلمبند کرنا ہو گا ۔ابن خلدون نے خود اےسا تارےخ دان بننے کا فےصلہ کےا ۔اس نے اےسی فکر اےجاد کی جس نے سب کو مبہوت کر دےا ۔اس نے تارےخ نوےسی کا اےک بڑا اسلوب اےجاد کےا جس نے اس کے قارئےن کو متحےر کےا ۔اےک اےسا اسلوب جو خاصتاً اس کا اپنا تھا ۔اس نے جس نظر سے تارےخ کو دےکھا اس کو اےک نئی سائنس کا درجہ حاصل ہو گےا ۔اےک اےسی سائنس جس کی تشرےح بھی جدےد تھی ۔ےہ سائنس اس نے طوےل عرصے تک غوروفکر اور تدبر کے بعد اےجاد کی تھی ۔ےہ اےک اےسی سائنس تھی جس نے ےونانےوں کی سائنس کو حتیٰ کہ ارسطو اور افلاطون کی سائنس کو بھی پےچھے چھوڑ دےا ۔ابن خلدون خود بھی اپنے وجدان کی پرواز ےا الہامی کےفےت کا نتےجہ قرار دےتا ہے ۔ابن خلدون کی ندرت خےال مےں کوئی شبہ نہےں ۔چودھوےں صدی کا ےہ بر بر اپنے تمام ہم عصروں مےں سب سے زےادہ نماےاں ہے اور اےسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مےں سے ہے ۔مغربی مفکرےن کی مانند ابن خلدون نے اےک جدت کو جنم دےا اور اےک جدےد عمرانی سائنس دان ہے جس نے تارےخ کا جوہر ،سےاحوں کی تنظےم اور ثقافتوں کی ترتےب سے اخذ کےا ،جس مےں سےاسی تبدےلےوں کے حادثات بھی رونما ہوتے ہےں اور جس نے اس کے جوہر کے اندر داخل ہو کر اس کے تجزےے اور تحلےل کی کوشش کی ۔وہ اےک اےسا دانشور تھا جو عربی کلاسےکل رواےت کا پاسبان بھی تھا ۔اس کا عقےدہ بہت پختہ تھا لےکن اس نے قانون کی سختی سے پابندی کی اور قانون کی آزادانہ تعبےر کے درمےان کا راستہ تلاش کرنے کی شعوری کوشش کی ۔اگرچہ اس نے عقلی پےمانوں کا استعمال کےا مگر وہ خاصتاً تعقل پسند نہےں تھا ۔ممکن ہے اس کا اختتام اخلاقی سائنس پر ہوتا لےکن اس نے آغاز اےک انقلاب سے کےا ۔اس کے نزدےک زندگی معجزات کا مجموعہ تھی ،حتیٰ کہ انسانی تارےخ مےں بھی ربانی مداخلت ہوتی ہے جس کی کسی سائنسی اصول کے تحت تشرےح ممکن نہےں ہوتی ۔اس کے مذہب نے اگر اےک طرف اس کے بعض معاملات مےں قدغن لگائی لےکن اس کے ساتھ ہی اس نے اس کی مسموع سوچ کو تقوےت بھی بخشی جس سے تارےخ نوےسی کا درجہ بلند ہو گےا ۔ابن خلدون نے تارےخ کو محض وقائع نگاری کی بجائے اےک اعلیٰ و ارفع قدرت کے تابع کر دےا ۔اس نے تارےخ کے ضبط تحرےر مےں لانے کو بھی اخلاقےات کے مقدس اصولوں کی پاسداری کا ملزم قرار دےا ۔اےسا اصول جن کی خلاف ورزی تباہ کن حوادث کا موجب بنے جبکہ ان کی پاسداری حکمرانوں کو بھی دانش سکھلا دے ۔ اب ہم بات کرتے ہےں ابن خلدون کی تارےخ نگاری پر ۔اس کی تحرےر کردہ ضخےم کتب کا مطالعہ بے حد روح پرور ہے ،جو اتنی بھرپور اور متنوع ہےں اور اتنی گہری اور وسےع ہےں جس طرح بحر بےکراں جس مےں ہر طرح کے خےالات کی مچھلےاں پکڑی جا سکتی ہےں ۔جب وہ تقسےم کار اور دولت کے سماجی منبع کی بات کرتا ہے تو بے حد دقےق نظر آتا ہے ۔وہ تارےخ کی نوع اور اس کے نفس مضمون پر بھی رہنمائی دےتا ہے ۔ہم اس کی بالغ نظری پر دنگ رہ جاتے ہےں ۔اےک ہی چےز مےں خےروشر کی تمےز کرنے والی آنکھ ہمہ وقت چوکس ہے ،پھر اس کے نزدےک تہذےب ےافتہ شہری زندگی ہے لےکن اس کے ساتھ ہی شہری زندگی مےں ہر نوع کی بد عنوانےاں بھی لازم ہےں ۔اس موقع پر وہ قدےم بدوﺅں کی سادگی کو مثالی قرار دےتا ہے لےکن وہی بدو تہذےب کو تباہ کرنے والے بھی ہےں ۔وہ ہمےں بار بار خانہ بدوشوں کے پاس لے جاتا ہے جن کے ساتھ کہ وہ رہتا رہا ہے ۔انہی مےں رہتے ہوئے اس نے لکھا اور پھر انہی سے بھاگ نکلا ۔وہ ےکا ےک چند جملوں مےں ان کی پوری زندگی کی تصوےر کھےنچ دےتا ہے ۔ عالم عرب کے بارے مےں اس کا تجزےہ کس قدر درست ہے اور مراکش ےا عرب کی تارےخ کے بارے مےں اس کی آراءکس قدر ٹھوس ہےں کہ آج بےسوےں صدی مےں بھی ہمےں ہو بہو اسی طرح نظر آتی ہےں جس طرح اس نے چھ سو سال قبل بےان کےا ۔صحرا کا خالص پن ،فتح ےابی جسے شہری شہنشاہےت مےں تبدل کر دےتی ہے ،تب وہ عےش و عشرت اور تعےش مےں مبتلا ہو جاتے ہےں ۔ بےوروکرےسی کی تشکےل ہوتی ہے اور عوام پر ٹےکس عائد کر دئےے جاتے ہےں۔لےکن ہمےں ابن خلدون کی محدود دولت کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا ۔ وہ تارےخ کا فلاسفر ہے ،آفاقی تارےخ دان نہےں ۔ نوٹ :ہگ ٹرور رد اےک برطانوی مورخ ہے جو 1957-80کے دوران آکسفورڈ ےونےورسٹی مےں جدےد تارےخ کا پروفےسر رہا ۔درج بالا اقتباس اس کی کتاب ”تارےخ کے مضامےن “ سے لےا گےا ہے ۔