اقدارِملت، اسلام آباد کی کتاب”عورت اور نسل“ کو زاہرہ خان رانجھا نے ترتیب دیا ہے ۔ بیشک خوشگوار ازدواجی زندگی اور بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کےلئے فکر انگیز مضامین اور کہانیوں پر بہترین کتاب ہے ۔ زاہرہ خان رانجھا علمی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔کتاب کا انتساب فلسطین کے عظیم شہداءا ور غازیوں کے نام کرکے کتاب کی قدر و قیمت بڑھا دی۔ کتاب کے پیش لفظ میںاسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائرہ بتول نے بہشتی زیور کتاب کے ذکر کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ایسی تمام کتب مذہبی پس منظر، حکایات اور مرنے کے بعد کی زندگی پر اپنی تو جہات مرکوز رکھتی ہیں۔ کتاب ”عورت اور نسل“ میں مولفہ نے اپنے تئیں اس سوال کا جواب اس کتاب کی صورت میں فراہم کیا ہے اور میری دانست میں انہوںنے یہ فریضہ انجام دے کر گویا قوم پر احسان کیاہے۔کتاب ”عورت اور نسل“ بنیادی طورپر کوئی طبع زاد فلسیانہ مباحث نہیں ہیں۔ یہ سادہ زبان میں بیان کی کئی چھوٹی چھوٹی سادہ سی باتیں ہیں۔ عموعی نفسیات کے حوالے سے بغور جائزہ لیے گئے ہیں۔ ان مسائل کی نشاندہی ہے، جن کی طرف افراد معاشرہ کا متوجہ ہوناہر حال میں ضروری ہے۔ اس کتاب میں بہنوں بیٹیوں کے مسائل اور ان کاحل پیش کر کے ملک کی خواتین کی بڑی خدمت کی ہے۔لکھتی ہیں نیٹ سے مختلف ویب سائٹس سے میاں بیوی کے تعلقات، بچوں کی پرورش اور بہترپرداخت اور نفسیات سے متعلق تحریریں یکجا کی ہیں۔ ہر تحریر کے آخر میں سوالات درج ہیں تاکہ قاری کوان پر غور و فکر کرنے اور ان کی روشنی میں اپنا جائزہ لینے کا موقع ملے ۔ اس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہو ا۔کتاب کاگیٹ اپ بہترین ہے۔کتاب کے تین ابواب میں 102 مختلف مضامین جمع کئے گئے ہیں۔پہلے باب میں 31 مضامین ہیں۔ ووسرے باب میں 37 مضامین اور تیسرے باب میں33 مضامین ہیں۔ تمام مضامین میں مشکلات کیسے پیدا ہوتیں ہیں ۔ اس کے حل کے طریقے کیا ہیں، پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔پہلے باب میں سب سے پہلے اللہ سے دعا مانگی گئی ہے۔ آرٹیکل میں ایک عورت کو ماں باپ کے گھر سے شادی کے بعد دوسرے گھر میںجانے پر بات کی ہے۔ ایک عورت کو نئے گھر میںاپنے آپ کو کس طرح ایڈجسٹ کرنا چاہےے۔آخر میں ان مسائل کو حل کرنے کے دوسوالات درج کیے ہیں۔باب اوّل کی آخری میںدیار غیر”میامی“کی ایک 60سالہ خاتون کی کہانی لکھی ہے، جس نے 60 سال کی عمر میں کالج جاکر تعلیم حاصل کی۔ اس میں مولفہ اپنے معاشرے کی بڑی عمر کی خواتین کو تعلیم پر اُبھارتی ہیں۔ آخر میں دوسوال جن میں بھی تعلیم کی طرف رغبت کی کوشش ہے۔ اس طرح باب دوم کی پہل بھی اللہ سے دعا سے کی ہے۔اللہ سے زندگی میں علم میں ترقی کرنے کی دعا کی ہے۔اس کے” طلاق کے بعد“ مضمون ہے۔ اس میںلکھا گیا کہ طلاق کیوں ہوتی ہے۔ اس سے بچے کی کیاتدبیریں ہیں۔ طلاق میاں بیوی کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ اس لیے زوجین کو ایک دوسرے کے جذبات کاخیال رکھ، اس سے بچا جا سکتا ہے۔اسلام میں تین دفعہ طلاق دینے کا کہا گیا ہے کہ شاید اس مدت میں کوئی ملاپ کی سبیل نکل آئے۔آخر دو سوال لکھ کر طلاق سے بچنے کی طرف راغب کیا گیا۔ اس باب کی آخری کہانی”خوبصورتی کی دریافت“ ہے۔اس کہانی میں چین کے بادشاہ اور اس کی بیوی کی ریشم کے کیڑوں سے نقصان کی باتیں تحریر کی ہیں۔ نچوڑ یہ نکالا کہ کس طرح ایک نقصان دینے والی شے سے بھی مفید چیز برآمد ہو سکتی ہے۔اس کے آخر میں میں دو سوال کیے تاکہ پریشانی سے بھی آسانی کی تلاش کی جائے ۔ باب سوم کے شروع میں بھی”رب کے حضور“ مضمون میں دعائیں مانگی گئی ہیں ۔ یاغفور ارحیم! ہمارے حال پر رحم فرما اور ہمیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملک وقوم کی خدمت کی توفیق عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔ اس کے بعد ایک آرٹیکل جس کا نام ”باپ کے مشورے“ ہے،میں ایک باپ کا ذکر جس کے پانچ بچے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی کامیاب زندگی کے لیے کئے مشورے دیتا نظر آتاہے۔ اس میں ہر وہ مفید مشورہ شامل ہے جو ایک بندے کو انسان بنانے کے لئے زندگی میں کام آتے ہیں۔ خاص یہ مشورہ بھی کے اپنی زندگی سے آگے انسانیت کی ترقی کے لیے بھی مشورے شامل ہیں۔ اس آرٹیکل کے آخر میں بھی حسب معمول دو سوال لکھے گئے ہیں۔اس سے قاری کو اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ کیا یہ کسی غیر ملکی باپ کے اپنے بچوں کو مشورے ہیں ۔ پاکستانی ماں باپ اپنے بچوں کوایسے مشورے دیتے ہیں۔اس باب کے آخر میں ایک کہانی ہے۔ جس کا نام” محبت کاانجام “ہے۔ایک جوڑے کی ہے۔ میاں بیوی کی طرف سے ہٹ کر کسی دوسری جین نامی خاتون سے پینگیں بڑھاتا رہتا ہے۔ ایک دن بیوی سے کہا میں تمھیں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ بیوی ناراض ہوئی۔ لیکن اس نے میاں سے کہا کہ ایک آدھ ماہ انتظار کر سکتے ہو۔ میاں راضی ہو گہا۔ وجہ ان کا بچہ تھا۔ اس دوران بچے کی محصومانہ باتوں نے میاںکا دل واپس اپنی بیوی کی طر ف مائل ہو گیا۔ جس خاتون سے پینگیںبڑھائی تھی، جب اُسے کہا کہ طلاق کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ وہ ناراض ہوئی اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ بیوی کو راضی کرنے، بازار سے پھول لے کر شام گھر پہنچا، مگر بیوی فوت ہو چکی تھی۔ کہانی کے آخر میںحسب معمول دوسوالوں میں اس تنازہ کی وجہ معلوم کی گئی۔ اس کا مقصد بھی معاشرے کی اصلاح کی طرف ذہن موڑنے ہیں۔ ساری کتاب میں اصلاحی کہانیاں ہیں۔ ہم نے چند کا انتخاب کیا ۔ ہم نے کافی کتابوں کامطالعہ کیاہے۔ ان پر تبصرے بھی لکھے، مگر کتاب” عورت اور نسل“ کوایک منفرد کتاب پایا۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ بہتریں کتاب ہے۔ کاش کہ اہل اقتدار اس کتاب کو تعلیمی نظام میں ،ایک نصابی کتاب کے طور پر شامل کرلیں۔ خرابی کی طرف تیزی سے گامزم، ہمارے معاشرے کی بڑی خدمت ہو گی۔