مشہور مقولہ ہے ”سلطنت ایک خیمہ کی طرح ہوتی ہے“۔ہر کوئی جانتاہے کہ خیمہ کے کل پانچ ستون ہوتے ہیں ۔ دوسامنے اور دو بیک پر اور ایک مرکزی ستون جو تھوڑا بلند درمیان میں ہوتاہے جو بظاہر خیمہ ایک کپڑے کا بناہواہوتاہے۔اس کے اندر ستون ہی اسے کھڑارکھتے ہیں ۔ سب سے پہلا ستون کسی بھی سلطنت کی سوسائٹی ہے ۔ اگردیکھاجائے تو ایک جسم ،ایک جان اورایک مقصد والی سوسائٹی ہی سلطنت بناتی ہے نہ کہ مختلف ٹکڑوں میںبٹی ہوئی سوسائٹی۔جب کبھی بھی دشمن کسی سلطنت کو ختم کرنے کا سوچتاہے تو وہ سب سے پہلے ستون اول کوہی کمزور کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس کےلئے وہ فرقہ ورانہ فسادات کرواتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں سے سلطنت مخالف اقدامات سرزد کرواتا ہے ۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کو آپس میں اُلجھا دیتا ہے ۔ رنگ ونسل کے فسادات برپا کروا دیتا ہے اور علاقائی بالادستی کے نعرے لگواناشروع کر دیتا ہے یعنی تقسیم در تقسیم کرواتاجاتاہے تاکہ مزاحمت کم ازکم ہواور کچھ دھڑے اس کے سپورٹر زکے طور پر سامنے آجائیں۔ کسی بھی سلطنت کا دوسرا فرنٹ ستون سیاست ہے ۔ دشمن جب عوام کی صفوں میںانتشار پیدا کر چکا ہوتاہے توسیاسی حلقوں پر وارکرتاہے۔وہ شہرت کے طالب اور اقتدار کے بھوکے لوگوں پر سرمایہ کاری کرتاہے تاکہ سلطنت سے سیاسی حمایت حاصل ہوسکے۔آئے دن کوئی نہ کوئی نیا منشور دے دیاجاتاہے۔کبھی کہاجاتاہے کہ حکومت نے یہ یہ کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیے،اگرہمیں موقع دیاجائے توہم جادوسے ایک ہی دن میںیہ درست کردیں گے۔کبھی مہنگائی،بیروزگاری اور کرپشن کا مدعا چھیڑ دیتے ہیںاور کبھی اقرباءپروری جیسے القاب! یعنی خیمہ کا بایاں ستون بھی کمزور کرنے کی پوری کوشش کروائی جاتی ہے اور ہمسایہ ملک کی اپوزیشن اور بائیں بازو کی جماعتیںاحسن طریقے سے یہ کام سرانجام دیتی ہیں ۔ معاشرت اور سیاست کو لگام ڈالنے کے بعد دشمن ملک کسی بھی امپائر کے بیک پلرزپر حملہ آورہوتاہے جس میںپہلے پہل وہ تعلیمی نظام پر وار کرتا ہے ۔ وہ آئی ایم ایف یا ایشین ڈویلپمنٹ وغیرہ کے ذریعے ایسی ایسی شرائط منوالیتاہے کہ اس ملک کے سیلابیوس میںفلاں فلاں چیزیں ڈلوادو اوروہ وہ چیز مٹوا دو وغیرہ ۔ کسی سلطنت کی تاریخ جس سے کوئی تحریک یا آگاہی پیدا ہونے کا خدشہ ہو،اسے ڈیلیٹ کروادیتے یا عیاشی ،فحاشی ،عریانی والے ٹاپکس ڈلوادیتے اورتعلیمی اداروں میں ”کو ۔ ایجوکیشن “جیسی چیزیں یہی این جی اوز ہی کرواتی ہیں۔آزاد خیالی کہہ کر عورت کو چادرسے باہر نکلوادیتے ہیںیعنی ان کا مقصد تعلیمی ماحول کو اپنے ملک جیسا بنواناہوتاہے تاکہ اس سلطنت میںبھی ایک حمایتی جماعت نمودار ہوجائے۔دشمن کا چوتھا وار کسی سلطنت کے قانون پر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی راہ میں آنے والے قوانین کو اپنے لوگوں کی حمایت سے ختم کروانا چاہتا ہے ۔ اگر وہ ختم نہ کرواسکیں توکم ازکم اس آرٹیکل کوبدل ہی دیں اوریہ بھی کوشش کروائی جاتی ہے کہ کوئی نیا قانون نہ بنایا جائے جو سلطنت کے مفاد میں ہو،اس کے تاریک پہلوﺅںکو اُبھارکر عوام کے سامنے پیش کیے جائیں جیساکہ توہین رسالت ﷺکا قانون دشمن کی نظر میں کھٹکتاہے جس کے پیچھے جذبہ ایمانی ہے جو جانثار بنادیتاہے بندے کو ۔ آخر میں دشمن خود بے نقاب ہو جاتا ہے اور مرکزی ستون پرحملہ آورہوتاہے اور وہ ہے میڈیا۔وہ خریدے گئے غداروںکو سوشل میڈیا (فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس اپ ، انسٹا گرام وغیرہ)پر اپنے فرائض سرانجام دینے کے احکامات ارسال کردیتاہے اور تواورکچھ پرنٹ میڈیا زکوبھی اپنے اس مذموم مقصدکےلئے استعمال کرلیتاہے اور یہ فائنل میچ کھیلنے کےلئے وہ اپنے سر دھڑکی بازی لگا دیتا ہے تاکہ خیمہ (سلطنت) کے ستون زمین بوس ہوجائیں اور بے چارہ خیمہ خود بخود ہی گر جائےگا ۔ الغرض!جوجو رکاوٹیں اسے گرانے میں آڑے آتی ہوں دشمن ان پر فوکس کردیتاہے جیساکہ درخت کو کاٹنے کےلئے کلہاڑاکسی کام کا نہیںجب تک اس کے ساتھ لکڑی کا دستہ نہ لگاہو۔ہوش مند سلطان اپنے وطن کے دشمن پر گہری نظر رکھتا ہے اور بھرپور جواب دیتاہے۔ اس لیے دشمن اپنی جندجان سے خیمہ کے محافظوںکےخلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے اوراپنی خرید شدہ ہستیوں کے ذریعے سے محب وطن افراد ،اعلیٰ عدلیہ کے ججز اور سب سے بڑھ کرسپہ سالار کےخلاف محاذکھول شروع کرادیتاہے کہ پی ایم ، چیف جسٹس،جنرل صاحب سے نفرت کرو ۔ یہ سب ملک دشمن ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس ساری جنگ میں دشمن کا سب سے بڑا ہتھیار الیکٹرانک میڈیاہے جس سے سلطنت (خیمہ) نیست و نابود ہو جاتا ہے ۔ جی ہاں!یہ پانچ بنیادی اشیاءہیںجو کسی بھی سلطنت کے خیمہ کو قائم دائم رکھتی ہیں ۔ پانچوں ستونوں کے بغیر سلطنت ایسے ہی ہے جیسے انگلیوں کے بغیر ہاتھ۔اسے ہاتھ تو نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ تو صرف اور صرف ہتھیلی ہی رہ گئی یعنی خیمہ کے اُوپر کا کپڑا باقی بچا ہے ۔ خیمہ کے نیچے زمین قوم کا اتحاد ہے جب زمین پر گرفت کمزور ہوجائے توستون ایک ایک کرکے اُترنے لگتے ہیں ۔ اے اللہ۔ ! ہماری سلطنت کو قائم دائم رکھ اور ہماری آنکھوں کو کھلارکھ،تاکہ دوست و دشمن کی پہچان کر سکیں ۔ (آمین)