دائرہ علم و ادب پاکستان نے اپنی تیسری اہل قلم کانفرنس ، مورخ 2023 رفاءانٹرنیشنل یونیورسٹی آئی14 جناح ہال میں منعقد کی۔ اس سے قبل دائرہ علم ادب پاکستان، منڈی بہاﺅادین کے شہر پھالیہ، جو سکندر اعظم کے حوالے سے ایک مشہور قصبہ ہے، میں پہلی دو اہل قلم کانفرنس منعقد کی جا چکی ہیں۔ افتتاحی تقریب ۲بجے تلاوت قرآن پاک اورنعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوئی۔ ابتدائی کلمات دائرہ علم ادب پاکستان کا خاکہ پیش کرنے والے ڈاکٹر محمد افتخار کھو کھر نے ادا کئے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد ریاض عادل سیکرٹری دائرہ علم و ادب پاکستان نے ادا کیے۔ڈاکٹرانیس احمد نے دائرہ علم ادب کے قیام کو سہرایا اور کل پاکستان اہل قلم کانفرنس کو منعقد کرنے پر مبارکباد دی۔دوسرا سیشن ۳ بجے شروع ہوا۔ اس کی صدارت خلیل الرحمان چشتی، مہمان اعزاز ڈاکٹر گل زادہ شیر پاﺅ اور نظامت تنویر احمد حیدری نے کی۔ گل زادہ شیر پاﺅ نے اپنی بات سورة ر حمان سے شروع کی۔ اللہ نے انسانیت پر اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے۔ ادب کی ذمہ داری بڑی نازک ہوتی ہے۔ علم ایک سمندر ہے۔ ادیب تمام علوم سے نتائج اخذ کرکے اسے تعمیری اد ب میں منتقل کرتاہے۔ پورے ملک سے آئے ہوئے اہل قلم معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ علمی جہاد کر رہے ہیں۔ سید مودودیؒ کو فلسفہ پر عبور تھا۔سورة کے حوالے سے کہا کہ اے نبی آپ مجنوں نہیں ہیں یہ رب ا لعالٰمین کا کلام ہے۔ آپ اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ ایک طرف رسول اللہ کی لیڈر شپ اور دوسری طرف اخلاق سے عاری لوگ تھے۔ سورة خلق سے بھی قرآنی تعلیمات پیش کیں۔ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ ابودﺅد کی حدیث ہے اللہ ہمارے ہر عمل سے پہلے سے واقف ہے۔ ادیب کو کا ئنات کی ہر شے کو پیش کرنا چاہےے۔اہل قلم کو نئے نئے علوم حاصل کرنا چاہےے۔ اہل علم کو قرآن اور حدیث کے علم میں اپنے آپ کو گم کر دینا چاہےے۔تیسری نشست دائرہ کے درخشاں ستارے ۵ بجکر ۵۱ منٹ پر شروع ہوئی۔ اس نشست کی صدارت ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے کی۔ مہمان خصوصی کرنل اشفاق احمد تھے ۔ شرکاءنے اپنے اپنے صوبوں میں منعقدہ پروگراموں کے تاثرات اور آئیند کا لائحہ عمل پیش کیا۔چوتھی نشست، محفل مشاعرہ ۷ بج کر ۰۳ منٹ پر شروع ہوئی ۔ اس کی صدارت محمد ضغیم مغیرہ ، سرپرست دائرہ علم وادب پاکستان نے کی۔مہمان خاص خلیل الرحمان چشتی تھے ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر افتخار احمدبرنی نے ادا کیے۔ روایت کے مطابق سے انہوں نے پہلے صدر کی اجازت سے فلسطین پر اپنی نظم سنائی۔ اس کے بعد راقم کو فلسطین پر نظم پیش کرنے کے لیے بلایا گیا۔ راقم نے اپنی تازہ نظم ”غزہ بلا رہا ہے“ پڑھی ۔ اہل قلم سے داد وصول کی۔ اس کے بعد پورے ملک سے آئے ہوئے شعراءنے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ شعراءحضرات کی اکثریت نے فلسطین پر ہی اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے کے خاتمے پر مورخہ ۴ نومبر کے پروگرام اختتام کو پہنچا۔ دوسرے دن۵ نومبر کو پانچویں نشست بچوں کے ادیبوں کی کہکشاں ۹ بجے ڈاکٹر غلام رسول زاہد کی صدارت اور ڈاکٹر محمد ریاض عادل کی نظامت میںمنعقد ہوئی۔ اس نشست کے مہمان اعزاز اختر رضا سلیمی تھے۔ اس میں شرکاءنے تبصرے اور اپنی اپنی تجاویز پیش کیں ۔ مہمان اعزاز نے خطاب کیا۔ صدارتی خطبہ ڈاکٹر غلام رسول نے پیش کیا۔چھٹی نشست شعورجمال۔ جمال شعور ڈاکٹر حبیب الرحمان عاصم کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ساتویں نشست” معاشرتی قدریں اور اہل قلم“ ۱۱ بجے شروع ہوئی۔ اس نشست کی صدارت ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے کی۔ مہمان اعزاز ڈاکٹر فخرالاسلام، یہ وہ صاحب ہیں جن کی تین ڈاکٹر بیٹیوں نے کووڈ کے دوران اپنی زندگیاں مشکل میں ڈال کر کووڈ کے مریضوں کی دیکھ بال کی تھی۔ دوسرے ڈاکٹر صلاح الدین مینگل تھے۔ نظامت کے فرائض احمد حسن نے ادا کیے۔ڈاکٹراعجاز شفیع گیلانی نے کہا وہ پھالیہ کی گزشتہ اہل قلم شریک ہوئے تھے۔ جس میں بہت اچھا لگا تھا۔ ڈاکٹر عاصم نے جو شعور جمامال۔ جمال شعور میں ادب پر کافی اچھی بات کی۔آٹھویں نشست” جو چمن سجا کے چلے گئے“ ۲۱ بجے شروع ہوئی۔ اس کی صدارت محمد ضیغم مغیرہ نے کی۔ مہمان اعزاز مسعود فاروقی تھے۔ نظامت مظہر دانش نے کی ۔ مسعودفاروقی کے ذرا دیر سے آنے پر ضیغم مغیرہ نے اپنے مضمون کو شاندارطریعے سے پیش کیا۔ اشعار کے انبار لگا کر میلہ لوٹ لیا۔ بلکہ ایک پورا دیوان پڑھ ڈالا۔ نویں نشست” آغاز سے عروج تک“ ۲ بجے شروع ہوئی۔ اس کی صدارت محمد عبدالشکور نے کرنی تھی ۔ مگر وہ الخدمت کی ٹیم کے ساتھ مصر گئے ہوئے تھے۔ اور غزاہ سے شدید زخمی فلسطینیوں کا علاج ریڈ کراس کے ساتھ مل کر کر رہے ہیں۔ ان کی تقریر اہل قلم کو ویڈیو کے ذریعے سنائی گئی ۔ مہمان اعزاز اخر عباس اور نظامت کے فرائض اعظم طارق کوہستانی نے ادا کیے۔اس دوران ایک نظم ” اپنے ایمان کی آب یاری کریں“ سنائی گئی۔ عبدالشکور نے کہا کہ میں حاضر نہیں ہو سکا۔میں اہل قلم کو اس کانفرنس کو منعقد کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ کانفرنس نوجوانوں کو نشان منزل عطا کرے گی۔ اختتامی تقریب ۳ بجکر۵۱ منٹ پر شروع ہوئی ۔ صدارت انیق احمد، وفاقی وزیر ، مذہبی امور و بین الاقوامی ہم آہنگی نے کرنے تھی مگر شہر میں غزہ پر ریلی کیوجہ سے راستہ بند ہونے پر شرکت نہ کر سکے۔ مہمان اعزاز میں خالد رحمان،وقاس انجم جعفری، شاہدوارثی اور محمد صغیر قمر تھے۔ محمدصغیر قمر کسی وجہ سے سے شریک نہیں ہوئے۔ اس میں تاثرات پورے پاکستان سے آئے ہوئے عہداروں نے پیش کیے۔ تقسیم اسنا اور شیلڈز ہوئیں۔ اس کی نظامت دائرہ علیم ادب پاکستان کے مرکزی صدر نے کی۔احمد حاطب صدیقی نے بتایا کہ پورے ملک سے ۰۶۱ افراد اہل قلم کانفرنس میں شریک ہوئے۔ راولپنڈی اسلام آباد کے شرکاءاس کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے سب کو خوش آمدید کہا۔انیق احمد کو ہم نے علمی ادبی شخصیت ہونے کی وجہ سے شرکت کی درخواست کی تھی نہ کہ وفاقی وزیر کی وجہ سے ،وہ انتہائی کوشش کے باوجود اجلاس میں شریک نہ ہو سکے۔ شاہد وارثی کی جگہ نمیر حسن نے شرکت کی۔ حج کے ڈائریکٹر حسیب احمد صدیقی نے رہائش کے انتظامات کیے، ہم ان کے شکر گزار ہیں۔پورے پاکستان سے آئے ایک ایک شرکاءنے کانفرنس کی تعریف کی۔جنوبی پنجاب ، صادق آبادسے آئے فدا شاہین نے کہا بہت اچھا پروگرام تھا۔ عاقب جاوید گلگت بلتستان سے تشریف لانے والے نے اشعار سے کانفرنس کی تعریف کی۔پروفیسر سید ایاز محمود بلوچستان سے تشریف لائے تھے،کہا کہ اہل قلم کانفرنس کے انتظامات کی تعریف کی۔ کہا دائرہ علم و ادب کے روئے رواں احسن حامد میرے شاگرد ہیں، اس پر مجھے فخر ہے۔ خیبر پختونخواہ سے آئے شعیب خالد نے کہا ہم قافلہ کی شکل میں آئے ہیں۔ یہاں سے ایک مقصد لے کر جارہے ہیں۔ پروگراموں کی تعریف کی۔ راحیل قریشی صوبہ سندھ حیدر آباد آئے، کہا کہ دائرہ علم و ادب کے ذمہ داروں کا شکریہ۔ گزارش ہے کی بچوں کے ادب کو آگے بڑھایا جائے۔ آزاد جموں و کشمیر سے سید سلیم گرد یزی نے شرکت کی۔ کہا پورے پاکستان کے اہل قلم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کانفرنس سے جو کچھ سیکھا اسے ہمیں اپنے علاقوں میں پھیلانا چاہےے۔ وفاق کی نمائندگی کرتے ہوئے گروپ کیپٹن(ر) شہزذاد منیر احمد نے کہا کہ کانفرنس میں آکر اچھا لگا۔ کانفرنس کے بہترین انتظامات پر دائرہ علم ادب کے منتظمین شکریہ ادا کیا۔ شہزاد منیر احمد اس سے قبل پھالیہ کل پاکستان اہل قلم کانفرنس میں شرکت کر چکے ہیں۔ انہوں نے کئی تجاویز بھی تیار کی تھیں مگر وقت کی کمی کی وجہ سے موقع نہ مل سکا۔ آفاق کی نمایدگی نمیر حسن مدنی نے کی۔کہا کہ جس تسلسل سے دائرہ علم و ادب پاکستان اہل قلم کانفرنسیں منعقد کر رہا ہے یہ قابل مبارک باد ہے۔ ہمیں بچوں کو لکھنے پڑھنے کی ترکیب دینی چاہےے۔ میں دفتر کی طرف سے جہاں بھی جاتا ہوں بچوں کو خطاب کر کے ادب سے جوڑنے کی دعوت دیتا ہوں۔وقاص انجم جعفری نے کہا کہ میں پہلی دو کانفرنسوں میں شرکت نہیں کر سکا۔ آج تیسری کانفرنس میں شریک ہوں۔ مگر پہلی دو کانفرنسوں کی کاروائی نظر سے گزری ہے۔ دائرہ علم وادب کے کام کی ستائش ہونی چاہےے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ ہماری روایتی معاشروں سے علم و ادب ختم ہوتا جارہا ہے۔ کہا کہ ڈاکٹر افتخار کھو کھر نے دائرہ علم و ادب کو ترقی کی منازل طے کرائیں۔مہمان خاص، خالد رحمان ڈاریکٹر انسٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے کہا کہ ڈاکٹر اے کیو خان نے لکھا ہے کہ ایک کانفرنس کی صدار ت کر رہا تھا۔ پوری دنیا سے لوگ شامل تھے۔ آنکھوں کے معاملہ کی کانفرنس تھی۔ مجھے کہا گیا آپ نے کس میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ میں نے اپنا شعبہ بتایا اور کہا کہ میں آنکھوں کا معالج تو نہیں مگر میں بھی تو دو آنکھیں رکھتا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں کیا بات کروں اور کیا نہ کروں۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ باتیں کرنے والاہوں۔ لکھنے پڑھنا میدان جنگ کا اسلحہ ہے۔ اہل قلم، اس سے لیس ہو کر دشمن پر حملہ آور ہوں۔ میرا یہی دائرہ علم اودب کے اہل علم اور اہل قلم سے درخواست ہے۔ اس کے بعد دائرہ علم ادب کی تیسری منعقدہ کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔