غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہےں کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں کچھ ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مثلاچند ایسی شخصیات جو ریاست کے آئینی عہدے پر براجمان تھیں مگر انہوں نے اس دوران قومی مفادات کو سامنے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور عزیز واقارب کے مفادات کو سامنے رکھا ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس صورتحال کو کسی بھی طور قابل رشک قرار نہےں دیا جا سکتا ۔ایسے میں توقع کی جانی چاہےے کہ منصفی کے بلند منصب پر فائز شخصیات قومی مفادات اور ملکی سلامتی کو ہر شے پر ترجیح دیں گی۔یہ امر خصوصی تو جہ کا حامل ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام کا ایک مضبوط ڈھانچہ موجود ہے جو آئین اور قانون کے مطابق کام کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں صدر پاکستان نے مختلف ہائی کورٹس سے تین ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ کیا، جو آئینی اور قانونی حیثیت رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ فیصلہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 200 کے مطابق کیا گیا ہے، جس کے تحت صدر پاکستان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت کے بعد کسی بھی جج کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔اس عمل میں پانچ چیف جسٹسز کی مشاورت اور اتفاق شامل ہوتا ہے، جو اس کے آئینی جواز کو مزید مستحکم کرتا ہے۔مبصرین کے مطابق پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا تبادلہ کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک تسلیم شدہ قانونی طریقہ کار ہے۔ اس فیصلے کے تحت درج ذیل نکات کو مدنظر رکھا گیا:کسی بھی جج کے تبادلے کےلئے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت ضروری ہوتی ہے، جو اس معاملے میں کی گئی۔ علاوہ ازیں کسی بھی جج کے تبادلے سے قبل اس کی موجودہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جس ہائی کورٹ میں تبادلہ کیا جا رہا ہے، اس کے چیف جسٹس کی بھی رائے لی جاتی ہے اور حالیہ فیصلوں میں تمام متعلقہ چیف جسٹسز کی منظوری شامل تھی۔تبادلہ کیے گئے ججز نے اپنی رضامندی ظاہر کی، جو اس فیصلے کی شفافیت اور قانونی حیثیت کو مزید واضح کرتی ہے۔: اسلام آباد ہائیکورٹ پورے ملک کےلئے ایک مرکزی ادارے کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس میں مختلف صوبوں سے ججز کی شمولیت ایک مثبت قدم ہے۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ یہ عدالتی نظام میں وفاقیت کے اصول کو فروغ دیتا ہے اور ملک کے تمام حصوں سے مساوی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ یہ فیصلہ کسی غیر معمولی نظیر کا حامل نہیں بلکہ ماضی قریب میں بھی اس طرح کے تبادلے ہوتے رہے ہیں اور اس ضمن میں چند اہم مثالیں درج ذیل ہیں – *جسٹس سردار محمد اسلم* یہ لاہور ہائی کورٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے، جنہیں فروری 2008 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل کیا گیا اور بعد میں وہ IHC کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔*جسٹس ایم بلال خان* لاہور ہائی کورٹ سے ان کا تبادلہ 2009 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوا، اور وہ بھی چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔اس کے علاوہ* جسٹس اقبال حمید الرحمان* انہیں لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ منتقل کیا گیا اور 18ویں آئینی ترمیم کے بعد انہیں IHC کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔یہ تاریخی نظائر ثابت کرتے ہیں کہ ججز کے تبادلے کوئی نئی یا غیر روایتی بات نہیں، بلکہ یہ عدالتی نظام کا ایک حصہ ہیں جو پہلے بھی عمل میں آتے رہے ہیں۔سنجید ہ حلقوں کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے منتخب ججز کا اس تبادلے کے خلاف احتجاج ایک اخلاقی اور قانونی سوال کو جنم دیتا ہے۔ ججز کے لیے ضابطہ اخلاق واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ان کے ذاتی مفادات ان کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے چاہئیں اور جب ایک فیصلہ آئینی طریقہ کار کے تحت لیا گیا ہو اور اس میں تمام اعلیٰ عدالتی عہدیداران کی مشاورت شامل ہو، تو اس کیخلاف احتجاج کرنا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ ججز کا بنیادی فرض قانون کی پاسداری کرنا اور عدالتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے اورجب کوئی فیصلہ مکمل آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرتا ہو تو اس کے خلاف احتجاج یا ایجی ٹیشن کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اس تبادلے کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت درحقیقت آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جو عدلیہ کے وقار اور استحکام کےلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے حالیہ تبادلے ایک آئینی اور قانونی فیصلہ ہے جو ملک کے اعلیٰ عدالتی عہدیداران کی مشاورت سے کیا گیا۔ یہ عمل پاکستان کے عدالتی نظام کے اصولوں کے مطابق ہے اور ماضی میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ایسے آئینی فیصلوں کو چیلنج کرنے کے بجائے، ججز اور دیگر قانونی ماہرین کو عدلیہ کی خودمختاری اور عدالتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں مختلف صوبوں کے ججز کی نمائندگی ایک مثبت قدم ہے جو ملکی عدالتی نظام کی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا۔