قارئین کرام!زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جہاںاِس پاک دھرتی کو زرخیز زمین اور دریا دیئے ہیں وہیںپاکستان میں دُنیاکابہترین نہری نظام بھی موجود ہے جونہ صرف سبزہلالی کھیتوں کوسیراب کرتا ہے بلکہ پاکستان کی 65فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے اورآبادی کی اکثریت کا بالواسطہ یا بالواسطہ، اس شعبے پرانحصارہے۔زراعت مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 24 فیصد حصہ ڈالتی ہے اور یہ غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ حالیہ برسوں میں دالیں، پیاز، آلو، مرچ اور ٹماٹر جیسی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ان فصلوں کی معاشی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بدقسمتی سے گزشتہ حکومتوں میں جہاں دیگرشعبوں کو نظر انداز کیا گیاوہیں زراعت کیلئے بھی عصر حاضر اور جدیدزراعت کیلئے کوئی خاص کام نہیں کیا گیا ۔ اِس وقت جہاں دُنیا میں ٹیکنالوجی کے بدولت زراعت میں انقلاب برپاکیاجارہاہے وہیں آج پاکستان میں بھی جدیدزراعت وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کسان محنتی ،جفاکش اور قابل ہیں اگرحکومت کی جانب سے کسانوں کو بہترین بیج، کھاد اور اصلی زرعی دوائیں مناسب قیمت پر فراہم کرنے کیساتھ ساتھ جدیدزراعت کیلئے حوصلہ افزائی کی جائے تو پاکستان زراعت میں مزیدانقلاب برپاکرسکتا ہے ۔جدیدزراعت کیلئے وزیراعظم محمد شہبازشریف کی جانب سے شروع کئے گئے ”اُڑان پاکستان پروگرام ”کے تحت اقدامات جاری ہیں جن کے تحت ایک ہزار زرعی ماہرین کی چین میں تربیت جاری ہے جو جدید زراعت کی جانب پاکستان کاانقلابی سفر ہوگا ۔ گزشتہ روزوزیر اعظم محمد شہبازشریف کے زیرصدارت اجلاس میں بھی جدیدزراعت کیلئے مزید انقلابی اقدامات کافیصلہ کیا گیا ہے ۔اجلاس کو ربیع و خریف کی بڑی فصلوں کی گزشتہ برس پیداوار، کسانوں کو درپیش مسائل، آئندہ کا لائحہ عمل اور تجاویز پیش کی گئیں۔ اجلاس کو حکومتی اصلاحات کے نفاذ پر پیشرفت اور زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے بھی آگاہ کیا گیا۔ زرعی شعبے پر قائم ٹاسک فورس کی طرف سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ جدید زرعی مشینری، معیاری بیج، فصلوں کی جغرافیائی منصوبہ بندی اور کسانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کا طویل و قلیل مدتی جامع لائحہ عمل پیش کیا جائے،زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے زرعی شعبے کے تحقیقی مراکز کو مزید فعال بنایا جائے،زرعی تحقیقی مراکز میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جدید تحقیق کو یقینی بنایا جائے،زراعت میں مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کیلئے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے،زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن سے برآمدی اشیاء کی تیاری کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کی زرعی صنعت کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کا لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے،منافع بخش فصلوں کی کاشت اور پاکستان کو غذائی تحفظ کے حوالے سے خود کفیل بنانے کیلئے کسانوں کو ہر قسم کی رہنمائی فراہم کرنے کے اقدامات کئے جائیں،کسانوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تجاویز کیلئے مشاورتی عمل کو یقینی بنایا جائے،زرعی شعبے کی ترقی کیلئے صوبائی حکومتوں سے روابط و تعاون مزید مربوط بنایا جائے،موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچاؤ کیلئے کلائیمیٹ رزسٹینٹ بیج اور زراعت کے جدید طریقہ کار اپنانے میں کسانوں کی معاونت کی جائے،بارشوں اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش نظر نئے موزوں علاقوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں کپاس کی کاشتکاری کیلئے صوبائی حکومت سے تفصیلی مشاورت کے بعد جامع منصوبہ بندی کی جائے،نباتاتی ایندھن کو ملک کے انرجی مکس میں شامل کرنے کیلئے تحقیق اور منصوبہ بندی کی جائے اور زرعی شعبے میں مزید اصلاحات کیلئے جامع لائحہ عمل جلد پیش کیا جائے۔وفاقی وزیرِ غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نہ صرف منجھے ہوئے سیاستدان ہیں بلکہ پاکستان میں زراعت کے حوالے سے ان کی کاوشوں کوہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے نہ صرف حکومت بلکہ حکومت کے علاوہ بھی راناتنویرحسین نے زراعت اور کسانوں کیلئے ہمیشہ مستحسن اقدامات کئے ۔پاکستان ایگریکلچرریسرچ کونسل سمیت زراعت کی ترقی کیلئے اداروں کی حالیہ کارکردگی قابل تحسین ہے خصوصاًزرعی سائنسدان اور زرعی ماہرین نہایت قابلیت کیساتھ اقدامات کررہے ہیںاِسی طرح پاکستان کے تعلیمی اداورں میں لاکھوں بچے اور بچیاں زرعی شعبہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اورگریجویٹس بھی ہیں۔ حکومتی اقدامات جاری رہے توانشااللہ چند سالوں کے اندر زراعت اتنی توانا ہو جائے گی کہ ملکی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور اضافی اناج اور غلہ برآمد بھی کیا جا سکے گا۔
جدیدزراعت وقت کی اہم ضرورت!
