Site icon Daily Pakistan

جدیدSMS اور گاﺅں کا نائی

ایک دور تھا کہ ہم خط لکھنے کے بعد اس کے جواب کا انتظار شروع کردیتے تھے تاکہ تسلی ہو جائے کہ ہمارا پیغام پہنچ گیا اور پھر اس خط کا جواب بھی دیا جاتا تاکہ اگلے بندے کو بھی اطمینان ہو کہ اسکا خط مل گیا یہ ایک ایسا سلسلہ تھا جو چلتا ہی رہتا کچھ خط بغیر ٹکٹ بھی ارسال کردیے جاتے تھے جسکے پیسے وصول کرنے والا خوشی سے دیتا تھا ہمارے بعض دیہاتوں میں تو خط لکھنے اور پڑھنے کے لیے کوئی پڑھا لکھا بندہ بھی ڈھونڈنا پڑتا تھا پھر وقت نے پلٹا کھایا تو تعلیم تھوڑی سی عام ہوئی مگر پھر بھی کئی کئی میل پیدل چل کر سکول جانا پڑتا غربت اتنی کہ پاﺅں میں چپل تک نہ ہوتی تھی اس دور کے بچے آج بوڑھے ہوچکے ہیں شادی بیاہ کا سدہ دینے کے لیے گاﺅں کا نائی سپیشل جاتا اور اسے اس کام کے لیے کم از کم ایک ماہ لگا جاتا بعض جگہ پر اسے رات بھی بسر کرنا پڑتی اس دور کے نائی کی بڑی سخت ڈیوٹی ہوتی تھی گاﺅں کا حکیم اور ڈاکٹر بھی وہی ہوتا تھا بچوں کے ختنوں سے لیکر چھوٹے آپریشن تک وہ کردیا کرتا تھا پورے گاﺅں میں گھوم پھر کر حجامت اور شیو مفت میں کرنا بھی اسکی ذمہ داری ہوتی تھی مگر ہر چھ ماہ بعد کسی نہ کسی فصل کے آنے پر پورا گاﺅں اسے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دیتا تھا میں نے ہوش سنبھالی تو ہمارے گاﺅں 36/DNB ہیڈ راجکاں بہاولپور میں حسین بخش جسے سبھی سینا نائی کہتے تھے ابھی نوجوان تھاشادی بیاہ اور خوشی غمی میں پورے گاﺅں کا ساتھی ہوتا تھا پیغامات پہنچانے کے ساتھ ساتھ کھانے پکانے کا انتظام چار پائیاں اور بسترے اکھٹے کرنے کا انتظام مہمانوں کے لیے ناشتے سے لیکر رات تک کے کھانے کا انتظام اور حقہ چلانے کا انتظام بھی اسی کے پاس ہوتا تھا اور تو اور پورے گاﺅں کا وہ ریڈیو بھی ہوا کرتا تھا اور موبائل بھی پورے گاﺅں کی خبریں اسی کے پاس ہوتی تھیں جہاں بیٹھا بوریت ختم ہو جاتی مزے مزے کی باتیں سناتا کئی کئی سال ایک ہی استرا استعمال کرتا کبھی پتھری پر رگڑ کر کبھی چمڑے پر اورپھر ہاتھ کی ہتھیلی پر رگڑ کر اسے تیز کرتا شیونگ کریم کا تو تصور تک نہیں تھا صرف پانی سے بال نرم کرنے کے بعدبڑی مہارت سے استرا چلاتا حسین بخش کو دیکھے بہت عرصہ بیت گیا اللہ اسے اپنی حفظ امان میں رکھے پرانے دور کی نایاب نشانیاں ہیں یہ لوگ بات شروع ہوئی تھی خط سے جسے ایس ایم ایس نے ختم کردیا نہ اب وہ سدے دینے والا نائی رہااور نہ ہے خط کے جواب کا انتظار رہا اب ہر پیغام موبائل کے زریعے میسج کر دیا جاتا ہے جو گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں بھی نہیں بلکہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دوسرے بندے تک پہنچ جاتا ہے ایس ایم ایس کی اس ایجاد کو آج 30 سال مکمل ہوگئے موجودہ عہد کی اہم ترین ایجاد جس کے بغیر اب بیشتر افراد کو اپنی زندگی نامکمل محسوس ہوتی ہے جی ہاں ٹیکسٹ میسج بھیجنے کی سہولت کو 30 برس مکمل ہوگئے ہیں۔شارٹ میسج سروس جسے ایس ایم ایس کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے کی دنیا بھر 30 ویں سالگرہ منائی گئی ہے 3 دسمبر 1992 کو دنیا کا پہلا ایس ایم ایس برطانیہ میں بھیجا گیا تھا اس پہلے میسج میں نیل پاپ ورتھ سیما گروپ کے ایک ٹیسٹ انجینئر نے ساتھی رچرڈ جارویس کے اوربیٹل 901 فون پر ”میری کرسمس” بھیجا تھا جو اسے موصول ہوا تھا یہ میسج کمپیوٹر کے ذریعے ٹائپ کر کے ارسال کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت تک ٹیلی فون میں کی بورڈ کی سہولت نہیں تھی جسکے بعدبتدریج 160 حروف پر مشتمل ایس ایم ایس کا استعمال عام ہوگیا تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب صارفین روزانہ اربوں ایس ایم ایس بھیجنے لگے بلا شبہ پہلا ایس ایم ایس 1992 میں ارسال کیا گیا مگر اس کا تصور 1980 کی دہائی کے شروع میں سامنے آیا تھاجسے موبائل فون پر اسے بھیجنے میں کئی سال لگے۔1994 میں نوکیا 2010 نامی ماڈل کے متعارف ہونے کے بعد ایس ایم ایس کا استعمال زیادہ ہونے لگا کیونکہ اس میں آسانی سے پیغام تحریر کرنا ممکن تھا 90 کی دہائی کے موبائل فونز میں نمبروں والے کی بورڈ ہوتے تھے اور ہر نمبر کے ساتھ 2 یا 3 انگلش حروف منسلک ہوتے تھے۔مثال کے طور پر C لکھنے کےلئے1 کے ہندسے کو 3 بار ٹائپ کرنا پڑتا تھااب ایس ایم ایس کی سروس واٹس ایپ اور ایسی دیگر ایپس کے سامنے دم توڑتی جارہی ہے مگر گوگل کی جانب سے اسے نئی زندگی دینے کی کوشش جارہی ہے ایس ایم ایس کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر گوگل کی جانب سے میسجز ایپ میں گروپ چیٹس کےلئے اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن فیچر کے اضافے کا اعلان بھی کیا گیایہ فیچر انفرادی چیٹس کےلئے تو پہلے سے دستیاب تھا مگر اب گروپ چیٹس کےلئے اسے متعارف کرایا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ گوگل نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ میسجز ایپ میں صارفین بہت جلد پیغامات پر کسی ایموجی کے ذریعے ری ایکشن کا اظہار کرسکیں گے مختصر پیغام یاپیغام رسانی جسے عام طور پر ایس ایم ایس کہا جاتا ہے زیادہ تر ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل ڈیوائس سسٹم کا ٹیکسٹ میسجنگ سروس کا جزو ہے یہ معیاری مواصلاتی پروٹوکول استعمال کرتا ہے جو موبائل آلات کو مختصر ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ کرنے دیتا ہے ایس ایم ایس ٹیکنالوجی ریڈیو ٹیلی گرافی سے ریڈیو میمو پیجرز میں شروع ہوئی جو معیاری فون پروٹوکول استعمال کرتی تھی جسکی کی تعریف 1986 میں گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشنز (GSM) سیریز کے معیارات کے حصے کے طور پر کی گئی تھی ایس ایم ایس بہت سے سیلولر نیٹ ورکس پر تجارتی طور پر شروع ہوا جس نے ٹیکسٹ کمیونیکیشن کے طریقہ کار کے طور پر دنیا بھر میں بے حد مقبولیت حاصل کی 2010 کے آخر تک SMS سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ڈیٹا ایپلی کیشن تھی ایک اندازے کے مطابق 3.5 بلین فعال صارفین یا تمام موبائل فون صارفین کا تقریباً 80 استعمال تھایہ سروس صارفین کو 160 حروف تک کے پیغامات GSM موبائل پر بھیجنے اور وصول کرنے کی اجازت دیتی ہے 2013 میں عالمی ایس ایم ایس پیغام رسانی کے کاروبار کی مالیت کا تخمینہ 240 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا جو موبائل پیغام رسانی سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی کا تقریباً نصف تھا ہے اب وٹس ایپ نے اس پیغام رسانی میں مزید جدت پیدا کردی ہے اور جو قربت کے دور ہوا کرتے تھے اسے دوریوں میں تبدیل کردیا گاﺅں میں اب نہ سینا نائی نظر آتا ہے اور نہ ہی ڈیرے داریاں رہ گئی اس ترقی نے جہاں دوریاں ختم کردی وہیں پر دوریاں بھی پیدا کردی ہم پرانے دور کے حق میں تو نہیں مگر پرانے لوگوں کی قدر ضرور کریں جن کے پاس معلومات کا خزانہ ہے وہ بھی اپنوںکا۔

Exit mobile version