کالم

جنرل اسمبلی میں شہباز شریف کا جاندار خطاب

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بہتر اقتصادی پالیسیوں اورموثر حکومتی اقدامات کی بدولت گزشتہ 44 ماہ میں مہنگائی کی شرح کم ترین یعنی 6.9 فیصد ریکارڈ ہوئی ہے جو کہ معاشی اعتبار سے حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔ دوسری طرف یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 28ستمبر کو نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی رکن عالمی قیادتوں کو باور کرایا کہ تنازعات کے حل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی‘ موسمیاتی تبدیلی اور اسلامو فوبیا کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کی اجتماعی کاوشیں درکار ہیں اورخطہ میں پائیدار امن کے حصول کیلئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات واپس لینا ہونگے۔تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نے اس امر کو واضح کیا کہ پاکستان افغانستان میں حالات جلد از جلد معمول پر لانے کا خواہاں ہے۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے کشمیر اور فلسطین کے تنازعات‘ یوکرائن جنگ‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیدا ہونیوالے مسائل کا تذکرہ کیا اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اور قرضوں کے بوجھ سمیت متعدد علاقائی اور عالمی مسائل کا بھی احاطہ کیا۔ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کے امن اور خوشحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔اسی ضمن میں اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ آج ہمیں عالمی نظام کیلئے انتہائی کٹھن چیلنجز درپیش ہیں جن میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی جنگ‘ یوکرائن میں خطرناک تنازعہ‘ افریقہ اور ایشیاءمیں تباہ کن تنازعات‘ بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی‘ دہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات شامل ہیں اور اس ضمن میں غزہ کی مقدس سرزمین پر رونما ہونیوالے سانحات کو دیکھ کر ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں ۔ یہ صرف ایک تنازعہ نہیں‘ یہ معصوم لوگوں کا منظم قتل اور انسانی زندگی اور وقار کی روح پر حملہ ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اس تنازعے کو طول دینے میں شریک لوگوں کے ہاتھ بھی غزہ کے بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیںلہذا اس بربریت کی صرف مذمت کرنا ہی کافی نہیں‘ ہمیں اب اس انسانی قتل اور خونریزی کو فوری بند کرنے کا بھی تقاضا کرنا چاہیے۔ ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے پائیدار امن کیلئے کام کرنا ہوگا‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس ضمن میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکامی اسرائیل کا حوصلہ بڑھاتی ہے اور یہ صورتحال پورے مشرق وسطیٰ کو ایک نئی جنگ کی طرف گھسیٹ کر لے جارہی ہے جس کے نتائج عالمی سطح پر تصور سے بھی کہیں زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف نے عالمی قیادتوں کو یاد دلایا کہ فلسطین کے عوام کی طرح جموں و کشمیر کے لوگ بھی اپنی آزادی اور حق خودارادیت کیلئے ایک طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ اگست 2019ءکو بھارت نے جموں و کشمیر کے اپنے ناجائز زیرتسلط علاقوں کو بھارت میں اپنے تئیں ضم کرکے وہاں تعینات 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کے ذریعے کشمیری عوام پر ظلم و بربریت کی انتہائکر رکھی ہے اور اب بھارت کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر بھی قبضہ کررہا ہے۔ وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پائیدار امن کے حصول کیلئے بھارت کو تمام یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات واپس لینا ہونگے ۔ مبصرین کے بقول غزہ اور لبنان میں جاری اسرائیلی بربریت کیخلاف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی جانب سے نہ صرف ٹھوس اور جاندار موقف پیش کیا گیا بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر احتجاجاً اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا گیا اور وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں پورا پاکستانی وفد اجلاس سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اسی طرح کئی دوسرے ممالک کے مندوبین بھی نیتن یاہو کی تقریر کے دوران اٹھ کر باہر چلے گئے۔ غیر جانبدار حلقوں کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بالخصوص فلسطین اور کشمیر کے ایشوز پر بلاشبہ پوری قوم کے جذبات کی مدلل ترجمانی کی اور دوٹوک انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا۔ علاوہ ازیں شہباز شریف نے جس طرح برہان وانی شہید کا نام لے کر بھارتی دہشتگردی کی مذمت کی یہ امر ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔ انہوں نے علاقائی اور عالمی سطح پر انسانوں کو درپیش تمام مسائل کا مکمل احاطہ کیا اور ان مسائل سے انسانی برادری کی بقاءکو لاحق خطرات سے بھی بجا طور پر آگاہ کیا۔مبصرین کے مطابق بلاشبہ ان مسائل کا جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں اگرچہ تذکرہ ہوتا ہے اور عالمی نمائندے ان مسائل پر رسمی طور پر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر اجلاس کے اختتام پر ”رات گئی‘ بات گئی“ کے مصداق عالمی قیادتیں اپنے اپنے ممالک واپس لوٹ جاتی ہیں جبکہ برتری کے زعم میں بڑے ممالک کے اپنے پیدا کردہ مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہو رہے ہیں جس کے حل کیلئے مجاز فورموں کی جانب سے عملی اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جاتا رہا تو یہ صورتحال بالآخر پورے کرہ ارض کی تباہی پر ہی منتج ہو گی۔ اگر اقوام متحدہ ایسے عالمی اور علاقائی تنازعات کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں بھی ناکام ہے تو انسانی بھائی چارے‘ خردمندی اور صلح جوئی کی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردی اور اسکے پھیلاو میں بھی برتری کے زعم میں مبتلا ممالک کا ہی عمل دخل ہے جو سلامتی کونسل پر عملا قابض ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات بھی بنیادی طور پر بڑی صنعتوں اور معیشتوں کے حامل ممالک کے پیدا کردہ ہیں جنہیں متاثرہ ممالک کی مدد سے متعلق انکے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنوانے میں بھی اقوام متحدہ ناکام ہے۔ یہ ساری بے عملیاں اور زورآوروں کے ہاتھ نہ روکنے کی روش ہی انسانی بقائکے خاتمے کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نے انسانی بقائکو لاحق ان خطرات سے عالمی قیادتوں کو مفصل آگاہ کردیا ہے اور اب اس کیلئے عملیت پسندی کی طرف آنا ہی اقوام متحدہ اور عالمی قیادتوں کیلئے اصل چیلنج ہے۔اس تمام پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ شائد عالمی برادری کے موثر حلقے بہت زیادہ دیر ہوجانے سے قبل اپنی روش پر نظر ثانی کریں اگرچہ اس کی امید نہ ہونے کے برابر ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے