یہ ان دنوں کی با ت ہے جب ابھی نیا پاکستان اور پرانے پاکستان کے نعرے اور اختراخیں ایجاد نہیں ہوئیں تھیں ۔بس وہ قائداعظم ؒ والا اٹھارہ سالہ پاکستان تھا ۔جسے انگنت اور لازوال قربانیاں دے کر ہمارے آباﺅاجداد نے حاصل کیا تھا ۔لوگوں میں عزت احترام اخلاق رواداری اور قربانی کا بے پناہ جذبہ موجود تھا ۔اور قائداعظم ؒکے بعد آنے والے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ ایوین فیلڈ ،سرے محل ،منی لانڈرنگ ،لوٹ مار ، ٹین پرسینٹ جیسے کارنامے منسوب نہ تھے۔حالت یہ تھی کہ ہندوستان میں بہت بڑی ریاست کا مالک نوابزادہ لیاقت علی خان قائداعظم کا ساتھی بن کر پاکستان بناتے ہوے اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آگئے تھے ۔اور جب وہ وزیراعظم پاکستان بنے اور لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوے شہید کر دےے گئے تو ہسپتال میں ان کی شیروانی کے نیچے بوسیدہ کالر اور کف والی قمیض اور جیب میں صرف بارہ آنے تھے(یعنی آج کل کے پچہتر پیسے)۔اس دور میں گو غربت بھی تھی بے روزگاری اور بےکاری بھی موجود تھی ۔لیکن عام آدمی کو با آسانی روٹی دستاب تھی کوئی بیچارہ باپ غربت کے ہاتھوں اپنے بچے فروخت کرنے اور کوئی بھوک کے ہاتھوں مجبور مظلوم ماں اپنی پھول جیسی بیٹیوں سمیت روٹی کے ہاتھوں دریا میں چھلانگ لگا کر زندگی کی بازی ہارنے جیسے اندونہاک واقعات کا سوچ بھی نہ سکتی تھی ۔حکمران ریاستی ثمرات کو عوام تک پہنچانے کے نظریہ پر عمل پیرا تھے ۔اور اسی وجہ سے عام آدمی میں جذبہ حب الوطنی بدرجہ اتم موجود تھا۔گورنر جنرل سکندر مرزا سے اقتدار حاصل کرنے والے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدر پاکستان تھے ۔خوبصورت دراز قد مسکراتا فوجی وردی میں کمال کی شخصیت تھے ۔ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ جمہوریت کے جوش میں جنرل کے بارے میں یہ تعریف سن کر ناراض ہو جائیں۔ان سے پیشگی معذرت لیکن ملکی تاریخ سے واقف جانتے ہیں کہ ایوبی دور میں پاکستان نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی و خوشخالی کی منازل طے کیں وہ اپنی جگہ ایک روشن باب ہے۔اسی جنرل ایوب خان کے دور میں ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت کے بزدل اور نالائق حکمرانوں نے زمینی حقائق کے برعکس پاکستان کو خدانخواستہ نست و نابود کرنے کے لئے تمام عالمی قوانین اور اخلاقیات کو نظر انداز کرتے ہوے چوروں کی طرح رات کے وقت پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا اور سب سے پہلا ہوائی حملہ وزیرآباد سے متصل تاریخی قصبہ دھونکل کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی مسافر گاڑی بابو ٹرین پر کیا ۔میں ان دنوں چرچ آف سکاٹ لینڈ مشن ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان دینے کے بعد پاک فوج کی طرف سے لگائے گئے تربیتی کیمپ سے فوجی ٹرینگ حاصل کر کے لاہور کی سیر کرنے اپنے ماموں اور بھائی کے ساتھ اسی بابو ٹرین میںسوار تھا جونہی ہندوستانی بزدل اور نالائق فضائیہ نے گاڑی کے اوپر نیچی پرواز کرتے ہوئے چکر لگایا تو مسافر ٹرین کے مسافروں نے انھیں پاک فضائیہ کے شاہین سمجتے ہوئے گاڑی سے اتر کر پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگانے شروع کر دیے پھر اگلے ہے لمہے جب جہازوں نے گاڑی پر سٹریفنگ (گولیاں چلانا ) اور راکٹ فائر کرنا شروع کیے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تو بزدل بھارتی طیارے ہیں لیکن اندازہ کرے کہ ہوائی حملہ کے باوجود مسافروں میں کوئی خوف و حراس نہ تھا جذبہ حب الوطنی ان کے اندر سے پاکستان زندہ آبا کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی اس حملہ میں وزیرآباد کی مشہور طوسی خاندان کی میڈیکل کی طالبہ مس عابدہ طوسی ہوائی حملے میں جان کی بازی ہار کر جنگ ستمبر کی پہلی پاکستانی شہید کا اعزاز اپنے نام کر لیا ۔عابدہ طوسی کے چچا اس وقت ویسٹ پاکستان کے سیکریٹری ہیلتھ اور دوسرے چچا مسٹر ایم ایس طوسی قائداعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے ۔اور طوسی خاندان کو اپنے علم و فضل کی وجہ سے عوام میں پذیرآئی حاصل تھی۔اسی طرح وزیرآباد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جنگ ستمبر کا پہلا شہید سپاہی صابر حسین تھا ۔جو دھونکل میں دشمن کا نشانہ بنا اور آج بھی قصبہ کے لوگ ان کی قبر پر بہت بڑا اجتماع کر کے چھ ستمبر کو انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔جنگ ستمبر بھارت کی سب سے بڑی غلطی تھی اسنے پاکستان کو نوزایدہ کمزور ریاست سمجھ کر ترنوالہ سمجھتے ہوے حملہ کر دیا تھا۔لیکن اسے معلو م ہی نہیں تھا کہ پاکستانی عوام زندہ اور دلیر قوم ہے۔جو دفاع وطن کے لئے پاک فوج کے ہمراہ قدم قدم پر دشمن کا مقابلہ کرنے اور اسے ناکوں چنے چبانے کی اہلیت رکھتی ہے۔اور یہ ہی ہوا ادھر جنگ شروع ہوئی ادھر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے ریڈیو پاکستان سے قوم کے نام تاریخی مختصر خطاب میں یہ کہ کر قوم کو آتش فشاں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا کہ میرے ہم وطنوں دشمن نے ہمارے ملک پر چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا ہے ۔آپ سب کو جذبہ قومی سلامتی کے تحت آگے بڑھنا ہو گا اور دشمن پر ثابت کرنا ہوگا کہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ۔اور بھر دنیا نے دیکھا کہ ہمارے گھریلو خواتین طالبات نوجوان بڑے بوڑھے سبھی سپاہی کا روپ دھار گئے ۔چھوٹے بچوں سے لے کر گھریلو خواتین طلباءطالبات سب نے اپنی بچتیں ٹیڈی پیسہ ٹینک کی صورت میں جمع کر کے حکومت کو دینا شروع کر دیں۔ہمارے شاعروں نے وہ رزمیہ ترانے لکھے اور ہمارے گلوکاروں نے جس سوز کے ساتھ انہیں گایا وہ اردو ادب کی روشن تاریخ سڑکوں کے کنارے دوران جنگ لوگ کھانے بنا کر پاک فوج میں تقسیم کرتے اور انہیں خوش آمدید کہتے ہمارے فوجیوں نے ٹینکوں کی جنگ میں وہ عسکری تاریخ لکھی ہےکہ جسے دنیا بھر کی فوجی تاریخ میں پڑھایا جاتا ہے۔17روزہ جنگ ستمبر میں اپنے سے کئی گناءبڑی فوجی طاقت کو شکست دے کر پوری دنیا میں ہمارے بہادر عوام اور افواج نے پاکستان کو ایک بہادر قوم کی حیثیت سے منوایا ہے۔یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا جواب وہ ہی ہے کہ ہم پر حکومت کرنے والے جمہوری اور فوجی حکمران ریاستی ثمرات عام آدمی تک پہنچا رہے تھے ۔اور عام آدمی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف تھے جس سے عام آدمی کو یقین تھا کہ پاکستان ہمارا ہے۔لیکن ماضی قریب سے وقت حال تک میں عوام پر بجلی گیس پٹرولیم کی قیمتوں میں قاتل اضافوں اور اشائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافوں اور عوام دشمن پالسیوں کی وجہ سے عام آدمی نے جذبہ حب الوطنی تو موجود ہے مگر ویسا نہیں جیسا 1965تھا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ستمبر سے پہلے جنگ ستمبر کی یادوں کارناموں شہیدوں غازیوں مجاہدوں اور عوام کے کارناموں اور خدمات کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر کے نئی نسل کو ان کے بارے میں بتاےا جائے ۔