جب دنےائے انسانےت پر گھٹا ٹوپ اندھےرا چھاےا ہوا تھا ،ظلم و بربرےت عروج پر تھی ،قتل و غارت کا بازار گرم تھا ،شرک و بت پرستی عام تھی ،الغرض ہر لحاظ سے اولاد آدم بحثےت مجموعی شر مےں مبتلا اور خےر سے محروم ہو چکی تھی اےسے مےں تارےخ اےک انقلابی قوت کی متلاشی تھی ،انسانےت اپنے آخری نجات دہندہ کی منتظر تھی کہ اصحاب فےل کے واقعہ کے پچپن دن بعد جناب آمنہؓکے ہاں امےن الہٰی کی مدت ختم ہوئی اور وہ دن آ گےا کہ ودےعت الٰہی کا وہ ناےاب گوہر ، قدرت لا متناہی کا لاجواب جوہر ،علم و اےقان کا محزن ،عرفان و اتقان کا معدن،بشارت موسیٰ کا مدعا،نوےد عےسیٰ کا مقتضائ،اصل وحدت کا معلم ،افضل المرسلےن،خاتم النبےےن،شہنشاہ کونےن ، رسول الثقلےن،فخر ہاشمی،ناز پرور آمنہؓحضرت محمد ﷺرحمت الٰہےہ اور برکت قدسےہ کا اسوہ حسنہ بن کر 12ربےع الاول رونق گلستان عالم ہوئے ۔ آپ کا نام محمد رکھا گےا۔اشرف کائنات ،شفےع روز محشر ،افضل از جمےع اہل الار اض ولسمٰوات ، سےد المرسلےن محمد مصطفیٰﷺ کے اخلاق و اوصاف شرےفہ کو لکھنا اےسا ہے جس طرح کوئی چاہے کہ درےا کے پانی کی کسی پےمانے سے پےمائش کر ے جےسے کوئی چاہے کہ آفتاب کو اپنے گھر کے درےچہ سے مکان مےں داخل کرے ۔ آپ کا پر نور چہرہ چودھوےں کے چاند کی طرح درخشندہ ،سفےد اور نورانی تھا ۔آپ کی پےشانی کشادہ تھی آپ مےانہ قد سے ذرا اونچے لےکن زےادہ بلند قامت نہےں تھے آپ کی رےش مبارک گھنی اور دندان مبارک سفےد اور چمکدار تھے ۔ آپ کے تمام اعضاءبدن معتدل تھے ۔آپ راستہ چلتے تو متکبروں کی طرح قدم نہےں رکھتے تھے اور ہمےشہ وقار کے ساتھ چلتے تھے اکثر اوقات آپ کی نگاہےں نےچے کی طرف رہتےں اور جسے دےکھتے سلام مےں سبقت کرتے تھے بغےر ضرورت کے بات نہ کرتے تھے اور کلمات جامع کہتے کہ الفاظ کم اور معنی زےادہ اور حق کو ظاہر کرتے تھے ۔سختی آپ کے خلق کرےم مےں نہےں تھی کسی کو حقےر نہےں سمجھتے تھے اور تھوڑی نعمت کو زےادہ سمجھتے ۔کسی کی مذمت نہےں فرماتے تھے ۔ زےادہ ہنسنا آپ کا تبسم تھا اور بہت کم ہنسنے کی آواز ظاہر ہوتی ۔آپ ہر شخص کو اس کے علم اور فضےلت دےنی کی بناءپر ترجےح دےتے اور جو چےز ان کے کام کی ہوتی اور امت کی بھلائی کاسبب بنتی اس کو بےان فرماتے اور بار بار فرماتے جو شخص اپنی ضرورت کو مجھ تک نہےں پہنچا سکتا اس کی حاجت مجھے بتاﺅ اور کسی کی لغزش اور زبانی غلطی پر مواخذہ نہ فرماتے ۔جب صحابہؓ آپکی مجلس مےں طلب علم کےلئے آتے تو علم و حکمت کی چاشنی اورحلاوت چکھے بغےر نہ جاتے تھے اور آپ لوگوں کے شر سے بچنے کےلئے کنارہ کشی نہ کرتے ،خوشروئی اور خوش خوئی مےں ان سے درےغ نہ کرتے اپنے اصحابہ ؓ کے حالات سے غافل نہےں رہتے ۔آپ کے نزدےک فضےلت والا وہ شخص تھا جو مسلمانوں کا زےادہ خےر خواہ ،ان سے احسان اور ان کی مدد زےادہ کرتا تھا ۔کسی مجلس مےں ےاد خدا کے بغےر نہ بےٹھتے ۔مجلس مےں آپ کےلئے کوئی محسوس جگہ نہےں تھی ۔جب کسی مجلس مےں آتے تو مجلس کے آخر مےں خالی جگہ پر بےٹھ جاتے اور ہر اہل مجلس کو اکرام و التفات سے نوازتے اور ہر شخص ےہ گمان کرتا کہ مےں آپ کے نزدےک زےادہ عزت دار ہوں ۔جو شخص آپ سے حاجت طلب کرتا اگر قدرت مےں ہوتا تو اس کی حاجت روائی کرتے ورنہ اچھی گفتگو ےا وعدہ جمےل کے ساتھ اس کو راضی کرتے ۔آپ کا خلق تمام مخلوق کےلئے وسعت رکھتا اور ہر شخص حق کے معاملے مےں آپ کے نزدےک مساوی تھا ۔آپ کی مجلس شرےف ،بردباری، حےاءسچائی اور امانت کی مجلس تھی ۔اےک دوسرے کے ساتھ عدل و انصاف اور نےکی سے پےش آنے کی تلقےن کرتے ۔تقویٰ اور پرہےز گاری کی وصےت کرتے ۔بڑوں کی عزت و توقےر ،چھوٹوں سے شفقت و رحم اور مسافروں کی دےکھ بھال کرتے اہل مجلس کے ساتھ ہمےشہ کشادہ اور نرم خو تھے مسافروں ،امور بدو و جاہل لوگوں کے سوءادب پر صبر کرتے اور ان کی مذمت اور سرزنش نہ کرتے ۔سےرت ابن ہشام سے منقول ہے کہ حضرت رسول اکرم کے زمانہ مےں لشکر اسلام نے جبل طی کو فتح کےا وہاں سے جو قےدی مدےنہ مےں آئے ان مےں حاتم طائی کی بےٹی بھی تھی جب حضرت محمد نے انہےں دےکھا تو حاتم کی بےٹی نے آپ سے عرض کےا کہ اے اﷲ کے رسول باپ مر گےا ہے اور مےرا بھائی عدی بن حاتم شام کی طرف بھاگ گےا ہے ہم پر منت و احسان و بخشش کرےں خدا آپ پر منت و احسان کریگا۔آپ نے کوئی جواب نہ دےا ۔تےسرے دن جب آپ قےدےوں سے ملنے گئے تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اس لڑکی کو دوبارہ اپنی عرضداشت پےش کرنے کا اشارہ کےا گزشتہ بات کے اعادہ پر آپ نے فرماےا مےں اس انتظار مےں ہوں کہ کوئی امانت دار قافلہ مل جائے اور تجھے تےرے ملک کی طرف بھےجوں اور اس کو معاف فرماےا ۔جب کسی لشکر کو معمور کرتے تو قائدےن لشکر کو لشکر سمےت بلاتے اور ان کو اس طرح وصےت و وعظ فرماتے ۔ارشاد ہوتا” اﷲ کے نام پر جاﺅ ،اسی سے استقامت مانگو اور خدا کےلئے رسول خدا کی ملت پر رہتے ہوئے جہاد کرو ،ہاں اے لوگو نہ کرنا ،مال غنےمت سے کچھ نہ چرانا ،کفار کو قتل کرنے کے بعد ان کی آنکھ، کان اور دوسرے اعضاءنہ کاٹنابوڑھوں بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ، وہ راہب جو غاروں مےں رہتے ہےں انہےں قتل نہ کرنا اور درختوں کو نہ کاٹنا ،نخلستان کو نہ جلانا ،حلال گوشت کے جانوروں کو ختم نہ کرنا مگر ےہ کہ کھانے کی ضرورت پڑے ،کبھی کفار کے پانی کو زہر آلود نہ کرنا اور مکرو حےلہ نہ کرنا“ ۔آپ تمام لوگوں سے زےادہ حکےم و دانا،شجاع ،عادل اور مہربان تھے ۔آپ سب سے زےادہ سخی تھے کبھی کوئی درہم و دےنار آپ کے پاس نہےں رہا اور اگر کوئی چےز آپکی عطا و بخشش سے رہ جاتی اور رات ہو جاتی تو آپ کو قرار نہ آتا جب تک کسی مصرف مےں صرف نہ کر لےتے ۔ زمےن پر بےٹھ کر کھانا کھاتے اور اپنے جوتوں اور کپڑوں کو خود پےوند لگاتے ۔گھر کے دروازے کو خود کھولتے ،خود دودھ دوہتے ،جب خادم چکی چلانے سے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے ۔رات کو وضو کا پانی خود لاتے ،کھانا کھانے کے بعد انگلےاں چاٹتے ،آزاد اور غلام مےں سے جو آپ کو دعوت دےتا قبول کرتے ۔بھوک سے کبھی پےٹ پر پتھر باندھتے ،ےمنی چادر اور پشم کا جبہ زےب تن فرماتے ۔آپ کا اکثر لباس سفےد ہوتا ،سر پر عمامہ رکھتے ۔جب آپ نےا لباس پہنتے تو پرانا لباس کسی مسکےن کو دے دےتے ۔آپ کے پاس اےک عبا تھی جب کہےں جاتے تو اس کو دہرا کر کے اپنے نےچے ڈال لےتے ۔خربوزہ پسند کرتے اور بدبودار چےزوں سے کراہت کرتے ،ہمےشہ مسواک کرتے ،کبھی گھوڑے کبھی خچر اور کبھی گدھے کی سواری کرتے ۔آنحضرت فقراءاور مساکےن کی دلجوئی کرتے ،ان کے ساتھ بےٹھتے اور کھانا کھاتے۔صاحبان علم و اصلاح و اخلاق حسنہ کو دوست رکھتے ۔شےخ طبری کہتے ہےں کہ اےک دن اےک شخص آپ سے گفتگو کے دوران کانپ رہا تھا فرماےا مجھ سے کےوں ڈرتے ہو مےں کوئی بادشاہ نہےں ہوں ۔انس بن مالکؓ سے روائت ہے وہ کہتے ہےں کہ مےں دس سال حضور کا خادم رہا آپ نے کبھی مجھ کو اف تک نہےں کہا اور اےک دفعہ بھی آپ نے مجھ سے ےہ نہےں فرماےا کہ ےہ کام تو نے کےوں کےا اور مےرے کسی کام مےں عےب نہےں نکالا ۔آپ کی شجاعت کا ےہ عالم تھا خضرت علیؑ فرماتے ہےں کہ جب جنگ کا بازار گرم ہو جاتا تو ہم آنحضرت کی طرف پناہ لےتے اور کوئی شخص آپ سے زےادہ دشمن کے قرےب نہ ہوتا ۔تواضع و انکساری کے باوجود آپ کی ہےبت دلوں مےں اتنی تھی کہ لوگ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف نگاہ نہےں کر سکتے تھے ۔تمام آداب حسنہ ،اخلاق مستحسنہ اور اطوار حمےدہ کے ساتھ پےدا ہوئے جو کہ حلم و علم ،کرم و سخاوت ،عفت و شجاعت و مروت اور باقی صفات کمال ہےں کہ علماءفرےقےن نے اس سلسلہ مےں نئی کتابےں لکھی ہےں اور آپ کے عشر عشےر کا احصاءو شمار نہےں کرسکے اور عجز کا اعتراف کےا ہے ۔