بلا شبہ گزشتہ دو اڑھائی برسوں کے دوران ملک کی بد ترین معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوام مایوسی کا شکار تھے لیکن حکومت اور ریاستی اداروں کی مسلسل کاوشوں سے اس وقت ملکی معیشت مجموعی طور پر ایک امید افزا صورتحال پیش کر رہی ہے کرنٹ اکانٹ اور زر مبادلہ کی مارکیٹ کے پر سکون حالات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے ہیں اسی طری افراط زر کی شرح مئی 2023 میں 38فیصد تھی جو آج 4 فیصد کے لگ بھگ ہے پالیسی ریٹ جون 2023 میں 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھا جو آج بتدریج کم ہو کر 13 فیصد پر آچکا ہے گو علاقائی ممالک کے مقابلے میں ملک کے اندر شرح سود اب بھی بہت زیادہ ہے اس وقت بھارت اور نیپال میں شرح سود6.5 فیصد جبکہ سری لنکا میں8.25 فیصد اور بنگلہ دیش میں 10 فیصد ہے اصولا ملک میں افراط زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے شرح سود میں کمی سے عام آدمی کو کوئی براہ راست فائدہ نہیں ہوگا لیکن تاجروں صنعت کاروں اور دیگر کو حکومت سے قرض لینے میں کسی قدر آسانی ہو جائے گی ملک میں اس وقت بڑے سرمایہ دار بہتر منافع کے حصول کےلئے اپنی رقوم کسی بڑے منصوبے پر لگانے کی بجائے بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں تاکہ اس سے بہتر منافع کا حصول ممکن ہوسکے شرح سود میں کمی سے یہ پیسہ پھر سے مارکیٹ میں آئے گا اور کاروبار میں لگنے سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو ملے گی تاہم ملک میں شرح سود اب بھی بہت زیادہ اور اسے کاروبار کےلئے کسی صورت موزوں قرار نہیں دیا جاسکتا ان حالات میں جب افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے شرح سود کو بلند سطح پر رکھنے کا کوئی جواز نہیں کاروباری حلقوں کا مطالبہ ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لاتے ہوئے 7سے 8 فیصد کے درمیان کردیا جائے تاکہ خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے برابر ہو الغرضتلخ معاشی حقائق کو شریں معاشی صورت حال سے تبدیل کرنے کےلئے جاری کوششیں کامیابی کے آس پاس منڈلا رہی ہیں وزیر اعظم شہباز شریف وفاقی وزرا اور گورنر اسٹیٹ بنک کا معاشی استحکام کی جانب تیزی سے پیش رفت کا دعوی اپنی جگہ لیکن ملک کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی نظام کو درست خطوط پر استوار کرنے اور ٹھوس معاشی پالیسیاں بنانے کا ہے مضبوط اور جامع ترقی کے حصول کےلئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں تیزی ضروری ہے پاکستان کے پاس ایسے متعدد وسائل موجودہ ہیں جن پر سرمایہ کاری کی جائے تو ملک خوشحال ہوسکتا ہے معدنی وسائل کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ہماری زمین پر بلکہ زمین کے نیچے بھی بہت زیادہ معدنی وسائل موجود ہیں جنہیں ہم حتمی شکل دینے کے بعد اگر صحیح طریقے سے نکال کر مارکیٹ میں لائیں تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اس قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے مگر بد قسمتی سے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے فقدان نے پاکستان جیسے معدنی دولت سے مالا مال ملک کو معاشی طور پر مفلوج کر رکھا ہے قرض کے پروگراموں سے ادائیگیوں کا توازن کسی قدر قائم ہوا مگر اب بھی معاشی استحکام کی منزل خاصی دور ہے معاشی استحکام کےلئے قومی پیدواری صلاحیت کو بڑھانے اور دولت پیدا کرنے کی ضرورت ہے معاشی اشاریوں پر نظر ڈالی جائے تو دو تین سال کی نسبت اس وقت معاشی طور پر ہم بہتر پوزیشن میںہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ دولت کے پیدواری امکانات پر بھرپور توجہ دی جائے ہم ملک میں موجود قدرت کے انمول خزانوں کو صحیح منصوبہ بندی اور افرادی قوت کے درست اور بر وقت استعمال کے ذریعے نہ صرف پاکستان کو تیز ترین معاشی وسماجی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں پاکستان میں ٹیکس اور سروس فراہمی کا ڈھانچہ گزشتہ چند برس سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے پاکستان کے موجودہ ٹیکس سسٹم با اثر طبقے کی جانب سے غریب طبقے کےلئے ہے 80فیصد بالواسطہ ٹیکس آمدن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غریب لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا بھی اشیا ضروریہ پر وہی ٹیکس ادا کر رہا ہے جو 15لاکھ روپے ماہانہ کمانےوالا دے رہا ہے آمدنی کے محاظ سے ٹیکس لیا جاتا تو پاکستان کی ٹیکس آمدن موجودہ سے بہت مختلف ہوتی دوسری جانب ٹیکس ریبیٹ ریفنڈز اور سبسڈی کی دیگر اقسام بھی متمول طبقے کےلئے ہوتی ہیں غریبوں کےلئے نہیں بجلی گیس اور پٹرول پر دی جانےوالی سبسڈی متذکرہ بالا سبسڈیز کے آگے کچھ بھی نہیں ملک پر مسلط دو فیصد اشرافیہ کا طبقہ خود کوئی بھی قربانی دینے کو تیار نہیں الٹا اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کےلئے تسلسل کے ساتھ غریب عوام کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلا ہوا ہے ہمارا قرض خواہی کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے یہ معاشی استحکام کی منزل سے دوری کا اشارہ ہے اور قرض داروں کی ادائیگیوں اور نئے قرضوں کی سخت شرائط کے معاشی اور سماجی اثرات اپنی جگہ ہیں ان سب حالات میں قومی معاملات کی اصلاح کےلئے جامع اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں قرضوں پر انحصار کم کرنے کےلئے ملکی معیشت کو مستحکم کرنا انتہائی ضروری ہے فی زمانہ معاشی استحکام صنعتی فروغ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے صنعتی شعبے کی ترقی کو اہم قومی مفاد سمجھ کر چلنا ہوگا حکومت کا چیلنج یہ بھی ہے کہ قرض پر معیشت کے انحصار کو بتدریج کم اور کم سے کم وقت میں ملکی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے جو غیر پیداواری اخراجات کو کم کئے بغیر ممکن نہیں پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل کی بڑی وجہ عدم استحکام بھی ہے معاشی ترقی کے اقدامات کو نتیجہ خیز بنانے کےلئے سیاسی استحکام اور تمام اداروں کے درمیا مکالمے کی ضرورت ہے دنیا بھر میں اقتصادی نوعیت کے فیصلے کرتے وقت اس اصول کو سامنے رکھا جاتا ہے کہ مالدار طبقے سے براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے سرمایہ حاصل کرکے پسے ہوئے طبقات کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے بد ترین سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والے معاشرے تک میں یہ بات مد نظر رکھی جاتی ہے کہ وسائل پر قابض اشرافیہ جن طبقوں کی محنت کا پھل کھا رہی ہے انہیں اتنی آسانیاں ضرور فراہم کی جائیں کہ وہ زندگی کے حسن کو محسوس کریں اور ہنسی خوشی معیشت کا پہیہ رواں رکھیں مگر وطن عزیز میں آزادی کی ابتدائی برسوں کو چھوڑ کر فیصلہ سازوں اور اکنامک منیجرز کا سارا زور اس بات پر رہا ہے کہ عام آدمی کے پیر کے نیچے سے زمین کھسکائی جاتی رہے اور وسائل پر اشرافیہ کے قبضے کو زیادہ وسیع و مستحکم جاتا رہے گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ صورت حال اتنی سنگین ہوچکی ہے کہ عوام کےلئے زندگی ایک آزار بن گئی ہے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور ان میں پائی جانے والی بے چینی اپنی آخری حدوں کو چھو ر ہی ہے اس کا سبب ناقابل برداشت مہنگائی بے روزگاری بھوک غربت اور مایوسی ہے آئی ایم ایف کے مطابق اس وقت پاکستان میں بیروز گاری کی شرح 7.5 فیصد ہے جبکہ ورلڈ بنک کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد آبادی خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے اور مزید ایک کروڑ 30 لاکھ پاکستانی خطہ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں اس وقت پاکستانیوں کی اوسط فی کس آمدن جو مالی سال 2022میں 1766 ڈالر تھی گھٹ کر 1680 ڈالر ہوچکی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کا معیار زندگی تنزلی کا شکار ہے ملک کی پانچ فیصد آبادی کو نوازا نے کیلئے بنائی جانے والی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوچکا ہے عام آدمی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے وہ کسی سے فریاد کرسکتا ہے اور نہ ہی احتجاج ایسے حالات میں حکمرانوں کے معاشی بحالی یا استحکام کے دعوے عوام کو کیسے متاثر کرسکتے ہیں؟ حقیقی معاشی بحالی وہ ہوتی ہے جب سماجی تنا اور اضطراب میں کمی آئے اور عوام کو بنیادی سہولیات میسر ہوں حکومتی اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کے غریب اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام پرجو گزر رہی ہے اس کا مداوا بھی بہر حال ضروری ہے اب جبکہ حکومت ملکی اقتصادیات کو سنبھالا دینے کے دعوے کر رہی ہے تو ضروری ہے کہ عوام کی بحالی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے حکومتی اقتصادی ٹیم کی جانب سے بر وقت اقدامات اور مشکل فیصلوں کے نتیجے میں معیشت میں بہتری کے امکانات کا نمایاں ہو جانا بلا شبہ موجودہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے تاہم معاشی بہتری کے مثبت نتائج کو بلا تاخیر نچلی سطح تک منتقل کئے جاتا رہنا اور عوام کو مشکل فیصلوں کے منفی اثرات سے بچانے کی حتی الامکان ہر تدبیر کرنا ضروری ہے کیونکہ حقیقی قومی ترقی کا پیمانہ اشرافیہ کی نہیں عوام کی خوشحالی ہے۔