کالم

حکومت کی ترجیحات عوامی فلاح یا سیاسی مقاصد

ہر حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح و بہبود ملک کی ترقی اور اداروں کی بہتری ہونا چاہیے لیکن عملی طور پر حکومتوں کی ترجیحات مختلف ادوار میں مختلف رہی ہیں بعض حکومتیں حقیقی معنوں میں عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیتی ہیں، جبکہ کچھ حکومتیں محض سیاسی نعرے مخالفین پر الزامات اور اپنی بقا کی جنگ میں مصروف رہتی ہیں آج کے حالات میں اگر ہم پاکستانی حکومت کی ترجیحات کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ معیشت مہنگائی تعلیم صحت اور گورننس کے بنیادی مسائل کے بجائے سیاسی استحکام اور اقتدار کی جنگ زیادہ اہمیت رکھتی ہے ہر حکومت دعوی کرتی ہے کہ معیشت کو درست سمت میں لے کر جانا اس کی اولین ترجیح ہے مگر عملی طور پر جو اقدامات کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوتے ہیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینا ٹیکسوں میں اضافہ اور بنیادی سہولتوں کی قیمتیں بڑھانا کوئی دیرپا حل نہیں عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے آٹا چینی بجلی گیس اور پٹرول جیسی ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے لیکن حکومتوں کی اولین ترجیح اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا نہیں بلکہ وقتی پالیسیوں سے معاملات کو آگے دھکیلنا نظر آتا ہے پاکستان میں حکومتوں کی ایک بڑی کمزوری یہ رہی ہے کہ وہ سیاسی استحکام پر توجہ دینے کے بجائے اقتدار کی جنگ میں الجھی رہتی ہیں اپوزیشن کو دبانے مخالفین پر مقدمات قائم کرنے اور سیاسی بیانات کے ذریعے عوام کو تقسیم کرنے پر زیادہ توانائی صرف کی جاتی ہے ایسے حالات میں پالیسی سازی متاثر ہوتی ہے اور نتیجتا عوام کے مسائل پسِ پشت چلے جاتے ہیں سیاسی استحکام کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے نہ گورننس بہتر ہو سکتی ہے اور نہ ہی عوام کو حقیقی ریلیف مل سکتا ہے کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم اور صحت بنیادی ستون ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ دونوں شعبے حکومتوں کی ترجیحات میں سب سے آخر میں آتے ہیں تعلیمی ادارے وسائل کی کمی کا شکار ہیں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی دوسری طرف صحت کا نظام بھی زبوں حالی کا شکار ہے سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ادویات کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں اور نجی اسپتالوں میں علاج اتنا مہنگا ہے کہ متوسط طبقہ بھی وہاں جانے سے قاصر ہے اگر حکومت واقعی عوامی خدمت کو ترجیح دے تو اسے سب سے پہلے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بھرپور سرمایہ کاری کرنی چاہیے ترقیاتی منصوبے کسی بھی ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہوتے ہیں مگر اکثر حکومتیں انہیں محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں بڑے بڑے میگا پروجیکٹس کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن ان میں شفافیت اور دیرپا پالیسیوں کا فقدان ہوتا ہے کئی منصوبے شروع ہوتے ہیں مگر فنڈز کی کمی بدعنوانی یا سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادھورے رہ جاتے ہیں مثال کے طور پر سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر تو زور دیا جاتا ہے مگر بنیادی ڈھانچے کی ترقی، پانی کے مسائل اور زرعی اصلاحات جیسے اہم معاملات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کسی بھی ملک میں قانون کی بالادستی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے لیکن پاکستان میں عدالتی اور قانونی نظام میں شفافیت کا فقدان نظر آتا ہے عام آدمی کےلئے انصاف کا حصول مشکل ہے جبکہ بااثر افراد کےلئے قانون میں نرمی برتی جاتی ہے پولیس اور عدالتی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے لیکن یہ مسئلہ بھی حکومتی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتا اگر حکومتیں واقعی ملک کو ترقی دینا چاہتی ہیں تو انہیں سب سے پہلے قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہوگی تاکہ عوام کا نظامِ انصاف پر اعتماد بحال ہو سکے پاکستان میں گورننس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے بدعنوانی نے سرکاری اداروں کو مفلوج کر دیا ہے اور عام آدمی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ہر حکومت کرپشن کے خاتمے کے نعرے لگاتی ہے مگر عملی طور پر اس مسئلے کے حل کےلئے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی اگر بدعنوانی پر قابو پا لیا جائے تو ملک میں ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہوگا جب حکومت کی حقیقی ترجیح کرپشن کےخلاف سخت اقدامات لینا ہو پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات کو ازسرِنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے معیشت کو سنبھالنے کےلئے پائیدار پالیسیوں کی ضرورت ہے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے جب تک حکومتیں عوامی فلاح کو اولین ترجیح نہیں بناتیں تب تک ملک حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا عوام کو بھی چاہیے کہ وہ حکومتی کارکردگی پر نظر رکھیں اور صرف نعروں پر نہیں بلکہ عملی اقدامات کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے