کالم

خاک میں مل گئے نگینے لوگ

(گزشتہ پیوستہ)
مگر ایدھی رکے نہیں۔ کہتے تھے، "مجھے کسی فرقے سے سروکار نہیں، میں صرف انسان کو دیکھتا ہوں، اس کا دکھ دیکھتا ہوں۔” وہ بسا اوقات اپنے ہاتھوں سے کوڑے سے لاش نکالتے، خود غسل دیتے، خود کفن پہنا کر دفن کرتے۔ کبھی کسی بچے کو گود میں لے کر روتے، کبھی کسی بوڑھی ماں کا ہاتھ تھام کر مسکراتے۔ ان کا قاعدہ یہ تھا کہ خدمت گمنامی میں کی جائے، مگر خدا اسے ساری دنیا میں مشہور کر دے ۔ ان کی ثابت قدمی کا راز ان کے یقینِ کامل میں تھا کہ وہ اللہ کی رضا کیلئے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی بھی انسان کی مدد کرنے میں کوئی مذہب یا قومیت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ انہوں نے کبھی کسی فتوے یا تنقید کی پرواہ نہیں کی، کیونکہ ان کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی فلاح تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کا عمل اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے، اور یہی ان کیلئے کافی تھا۔ایدھی صاحب کی زبان پر فصاحت نہیں، عمل میں بلاغت تھی۔ نہ وہ خطیب تھے، نہ دانشور۔ ان کے پاس فلسفے کے دفتر نہیں، فقط تجربے کی کتاب تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگ ان کے ادارے پر بھروسہ کرتے ۔ زکواة، صدقات، خیرات سب انہی کے پاس آتے۔ نہ کوئی اسکینڈل، نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی اشتہار۔ نہ جھنڈا، نہ نعرہ، نہ دعوی۔ آج ایدھی فانڈیشن کے تحت 1800سے زائد ایمبولینسیں چلتی ہیں۔ ان میں ائیر ایمبولینس، موبائل اسپتال، بلڈ بینک، حتیٰ کہ بیرونی ممالک میں ریلیف مشنز شامل ہیں۔ ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے، مگر ان کے کفن پر کوئی تمغہ نہیں تھا۔ نہ وہ ستارہ امتیاز چاہتے تھے، نہ کسی صدر کی دعوت۔ وہ کہتے تھے، "اگر کوئی اعزاز مجھے دینا ہے تو میرے غریبوں کو دو، میرے لاوارثوں کو دو۔”وہ سادہ کپڑوں میں رہتے، لوہے کا پیالہ رکھتے، سادہ چارپائی پر سوتے۔ ان کے دفتر میں فرنیچر نہیں، ان کی گاڑی میں اے سی نہیں، ان کے گھر میں فریج تک نہ تھا۔ مگر ان کا دل اتنا وسیع تھا کہ اس میں پوری انسانیت سما جائے ۔ ان کی سادگی صرف ظاہری نہیں تھی، بلکہ ان کی روح میں پیوست تھی ۔ وہ دولت کی بجائے خدمت کو اپنی اصل میراث سمجھتے تھے۔ ایدھی فانڈیشن کے تحت چلنے والے منصوبوں میں دسترخوان، لنگر خانے، غریبوں کیلئے شفا خانے اور ذہنی مریضوں کی بحالی کے مراکز بھی شامل ہیں۔ یہ سب ان کی دور اندیشی اور انسانیت کیلئے ان کے بے پناہ درد کی عکاسی کرتے ہیں ۔ انہوں نے ہر اس شعبے میں کام کیا جہاں انسانیت کو مدد کی ضرورت تھی۔ایدھی صاحب کی خدمات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا۔ انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی بے پناہ پذیرائی ملی۔ اقوام متحدہ نے انہیں "انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بہترین خدمات”کے اعزاز سے نوازا۔ انہیں دنیا بھر سے کئی اعزازات اور تمغے ملے، مگر ان سب کے باوجود وہ ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا پیکر بنے رہے۔ وہ عالمی فورمز پر بھی اپنی سادگی اور انسانیت کیلئے اپنی بے لوث خدمات کی نمائندگی کرتے رہے۔ ان کی شہرت نے پاکستان کا نام روشن کیا، مگر انہوں نے کبھی اس شہرت کو اپنے ذات پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا: ہر مظلوم اور ضرورت مند کی مدد کرنا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ انہوں نے کبھی کسی انعام یا ستائش کی پرواہ نہیں کی، ان کا اصل انعام تو لوگوں کی دعائیں اور ان کے دلوں میں موجود عزت تھی۔قابلِ شرم بات یہ ہے کہ جس ملک نے ان کے ہاتھوں ہزاروں لاشیں دفن کروائیں، اسی ملک کی حکومتوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ ان کی زندگی میں بھی، ان کی وفات پر بھی۔ جب وہ 8 جولائی 2016 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، تو قوم کا ردعمل سرد اور رسمی سا تھا۔ چند تعزیتی بیانات، کچھ دکھاوے کی خبریں، اور بس۔ نہ تعلیمی نصاب نے انہیں جگہ دی، نہ قوم نے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کیا۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہم نے ایک ایسے محسن کو فراموش کردیا جس نے اپنی پوری زندگی ہماری خدمت میں گزار دی۔آج سوشل میڈیا پر جعلی مسیحائوں کی تصاویر وائرل ہوتی ہیں، ان کے بیانات پر لاکھوں لائکس آتے ہیں، اور ایدھی ؟ وہ فقط ان دلوں میں زندہ ہیں جنہوں نے سچ میں دکھ دیکھا ہو، جو کوڑے میں پھینکے بچوں کی چیخ سنتے ہیں جو جنازے اٹھاتے وقت آنکھیں بند نہیں کرتے۔فیصل ایدھی آج ان کا مشن سنبھالے ہوئے ہیں، مگر قوم کا رویہ ویسا ہی ہے۔ ادارہ وسائل کی کمی سے نبرد آزما ہے، رضاکار کم ہو رہے ہیں، عطیات گھٹ رہے ہیں، اور ریاست خوابِ غفلت میں مست ہے ۔ اگر ہم نے ایدھی کی روش نہ اپنائی، تو کل ہمارے اپنے لوگ ان جھولوں،ان ایمبولینسوں ، ان کفنوں کو ترسیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایدھی کے مشن کو اپنا قومی مشن سمجھیں اور اس کی بقا کیلئے عملی اقدامات کریں۔ ہمیں ان کی میراث کو صرف ایک یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ذرا سوچیے ، وہ شخص جو صرف پاکستانی نہیں، انسانیت کا سرمایہ تھا، اگر اس کا نام ہماری درسگاہوں میں نہیں، ہماری دعائوں میں نہیں، ہماری فکروں میں نہیں، تو پھر ہم کس رخ پر جا رہے ہیں؟ کیا ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جو فقط نعرے بازی جانتا ہے، یا وہ لوگ ہیں جو گریہ کرنیوالے چہروں کو مسکرانا سکھاتے ہیں؟ ایدھی کے جنازے میں عوام تو بیشمار تھے، مگر اقتدار کے ایوانوں سے خالی کرسیوں کا سکوت گونج رہا تھا۔ ان کی تدفین کے وقت ان کے جسدِ خاکی کے پاس فقط چند سادہ لوگ تھے، وہی جنہیں انہوں نے کبھی سہارا دیا تھا۔ نہ کوئی عالمِ دین کی رقت آمیز تقریر، نہ کسی وزیرِ اعظم کی آمد۔ بس خامشی، اور خدا کی رضا ۔ یہ منظر ہماری بے حسی کا منہ بولتا ثبوت تھا، کہ ہم نے ایک عظیم انسان کو اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی وہ عزت نہیں دی جس کا وہ حقدار تھا۔کاش کوئی مورخ یہ لکھ سکے کہ اس سرزمین پر ایک فقیر گزرا، جو خدا کی رضا کیلئے خلق کی خدمت کرتا رہا۔ جس نے کبھی افسر شاہی سے صلہ نہ مانگا، کبھی میڈیا سے داد نہ چاہی، صرف اس ذات سے راضی رہا جس کیلئے اس نے خود کو وقف کیا۔کاش ہم اس فقیر کو سجدے میں یاد کریں، اپنے بچوں کو اس کی سیرت سنائیں۔ ہمیں ایدھی کے فلسفہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا، تبھی ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔کہتے ہیں، روزِ محشر جب خدا پوچھے گا، "میرے بندے کہاں ہیں؟”تو وہ فقیر آگے بڑھے گا، سر جھکائے، چادر اوڑھے، اور کہے گا،”میں تو وہی ہوں جو تیرے ہی بندوں کو اٹھاتا رہا، انہیں غسل دیتا، کفن دیتا، اور تیرے ہی سپرد کرتا۔”اور خدا کہے گا،”تو میرے نزدیک وہی ولی ہے جس نے میرے بندوں کو میری مخلوق جان کر سرفراز کیا۔ تو داخل ہو میرے ان خاص بندوں میں جن پر نہ خوف ہو گا نہ غم۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے