کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اپنے فیصلے خود نہیں کررہی بلکہ اس سے کروائے جارہے ہیں کیونکہ حکومت عوام کی نمائندہ ہوا کرتی ہے اور عوام کے دکھ درد کا احساس اسے بخوبی ہوتا ہے مگر حکومتی فیصلوں سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں کو عوام کے بنیادی مسائل کا علم ہی نہیں اور انہیں محض لاکر بٹھا دیا گیا ہے کہ صرف حکمرانی کرے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان پر اپنی آنکھوں کو بند رکھیں ۔ سابقہ حکومت کے غلط معاشی فیصلوں کی بدولت ملک میں مہنگائی کا گراف 200فیصد سے اوپر چلا گیا اور جب پی ڈی ایم اتحاد کو حکومت کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اس مہنگائی کو سابقہ حکومت کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے کم کرنے کا دعویٰ کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سابقہ حکومت کا تسلسل برقرار رکھا اور مہنگائی کے گراف میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے ، حکومت کا سارا زور غریب عوام کی جیب پر ہے اوروزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بالادست طبقات پر ٹیکسز لگانے کی بجائے غریب عوام کو کچلنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں شاید احساس نہیں کہ چند ماہ بعد عام انتخابات میں جانا ہے جہاں عوام ووٹ کے ذریعے اپنے مستقبل کے حکمرانوں کا فیصلہ کرے گی اور ہر روز بڑھنے والی مہنگائی کا احتساب کرے گی تو ان کے دامن میں کیا بچے گا ، سوال یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی کا کیا پاکستان میں رہنا جرم ہے ، ایک غریب ریڑھی والا ، تانگے والا ، رکشے والا ہر چیز پر ٹیکسز کی ادائیگی کررہا ہے مگر جواب میں اسے کوئی ریلیف سرکاری سطح پر نہیں مل رہا ، اس وقت عوام دو چیزوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور غریب عوام خودکشیاں کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ایک جانب حکومت مسلسل بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرتی چلی آرہی ہے تو دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر دس دن بعد اضافہ ہوجاتا ہے ، ایک غریب آدمی جس کے گھر میں محض ایک بلب اور ایک پنکھا چلتا ہے وہ بھی ماہانہ ہزاروں روپے بجلی کے بلوں کی مد میں ادائیگی کرنے پر مجبور ہے، حکومتیں نہ تو ڈیم بناتی ہے اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے بناتی ہے ، اس کے پس منظر میں شاید یہ وجہ ہے کہ اگر بجلی کی شارٹ فال کو پورا کردیا جائے تو پھر بالادست طبقات کے جنریٹر کون خریدے گا، ان کا یو پی ایس کس کام آئیں گے ، بیٹریوں کے کارخانے کس طرح چل پائیں گے اور سولر پلیٹس کون خریدے گا، غریب ہر طرف سے پس رہا ہے دوسری جانب ذرائع آمدرفت کیلئے ٹرانسپورٹ کا استعمال تقریباً لازمی ہے ، اس میں اضافے سے جہاں روزمرہ کام کرنے والے غریب عوام پر اثر پڑتا ہے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت 2روپے اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز صاحبان کرایوں میں 20روپے کا اضافہ کردیتے ہیں جس سے ایک عام آدمی متاثر ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ اشیاءخوردنوش اور اجناس کی ترسیل ٹرکوں کے ذریعے کی جاتی ہے ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ان کی کرایوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے جس سے مارکیٹ میں اشیاءخوردنوش کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچتی ہے اور نتیجتاً نزلہ غریب عوام پر ہی آ گرتا ہے ، اب گزشتہ روزوفاقی حکومت نے یپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بجائے 2.07 سے لے کر10.92 روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا ۔پٹرول 2.07،لائٹ ڈیزل9.79،ہائی اسپیڈ ڈیزل 2.99اورمٹی کا تیل 10.92روپے مہنگاکردیاگیا، نئی قیمتوں کا اطلاق رات بارہ بجتے ہی شروع ہوگیا،وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق آئندہ پندرہ روز کے لیے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 2.07روپے اور لائٹ ڈیڑل کی قیمت میں 9.79 پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح مٹی کا تیل 10.92 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 2.99روپے فی لیٹر مہنگاکردیا گیاہے۔اعلامیے کے مطابق نئی قیمتوں کا اطلاق رات بارہ بجتے ہی شروع ہوگیا۔وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پیٹرول کی قیمت233.91 روپے سے بڑھ کر235.98روپے فی لیٹر، لائٹ ڈیڑل کی قیمت191.75 روپے اضافے سے 201.54 روپے فی لیٹر تک پہنچ گئیں۔اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیڑل آئل کی قیمت244.44 روپے سے بڑھا کر ک247.43روپے فی لیٹر جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت199.40 روپے سے بڑھا210.32 روپے فی لیٹر کردی گئی ہے۔قبل ازیں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 16 روپے کمی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 89 پیسے کمی کی سفارش کی تھی، جسے حکومت نے مسترد کردیا۔وزارت پیٹرولیم کے ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف شرائط، سیلاب سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے پیٹرول پر مکمل ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں پھر بڑا اضافہ، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)نے بجلی 4 روپے 34 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی۔ سی پی پی اے نے بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے 69 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دائر کی تھی۔نیپرا نے سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی(سی پی پی اے) کی درخواست منظور کرتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے 34 پیسے کا اضافہ کردیا، قیمتوں میں اضافے کی منظوری جولائی کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر 35 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ سی پی پی اے کے مطابق گزشتہ ماہ پانی سے 35.17 فیصد، کوئلے سے 12.74 فیصد بجلی پیدا کی گئی جب کہ ڈیزل سے 1.46 اور فرنس آئل سے 6.42 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 27 روپے 88 پیسے فی یونٹ آئی۔ سی پی پی اے کا کہنا تھا کہ فرنس آئل سے 35 روپے 69 پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کی گئی جب کہ مقامی گیس سے 10.36 فیصد اور درآمدی ایل این جی سے 14.98 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔ سی پی پی اے کی رپورٹ کے مطابق ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 28 روپے 28 پیسے فی یونٹ آئی۔حکومت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اور غریب عوام کے مسائل وپریشانی کو دیکھتے ہوئے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں کئے جانے والے اضافے کو فوری طور پر واپس لے تاکہ غریب عوام سکھ کی سانس لے سکے اور اس پاکستان کو اپنا ملک تصور کرسکیں کیونکہ ریاست کا کردار ایک ماں کا سا ہوتا ہے اور ماں اپنے سارے بچوں کا خیال رکھتی ہے تو خدارا حکومت بھی اپنے غریب عوام پر رحم کھائے۔
سید علی گیلانی جرا¿ت اور بہادری کا عظیم استعارہ
گزشتہ روز دنیا بھر میں عظیم حریت رہنماءسید علی گیلانی کی پہلی برسی عقیدت و احترام اور اس عزم کی تجدید کے ساتھ منائی گئی کہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پوری ریاست کے پاکستان سے الحاق تک تحریک آزادی کے شہداءکا مشن جاری رہے گا۔علی گیلانی جرات ، بہادری اور استقامت کے استعارے کے طور پر جیے ، انہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک آزادی کشمیر کیلئے وقف کی رکھی اور سری نگر میں بیٹھ کر غاصب بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کشمیری عوام کے حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کرتے رہے ، سید علی گیلانی مرحوم کی آدھی سے زیادہ زندگی بھارتی جیلوں میں گزری مگر بزدل دشمن ان کے ارادے اور استقامت کو متزلزل نہ کرسکا، بھارت ان سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ جب انہوں نے اپنی آخری سانس لی تو پورے کشمیر میں کرفیو کا نفاذ کردیا گیا اور انہیں خاموشی کے ساتھ دفن کرنے کی کوشش کی گئی مگر علی گیلانی کے ہزاروں بیٹے باہر نکل آئے اور بھارت کی اس طرز عمل کی مذمت کی ، علی گیلانی سرینگر میں بیٹھ پاکستان کے سب سے بڑے حامی تھے ، ان کی خواہش تھی کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی تسلط سے آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے ، ان کی زندگی میں یہ نہیں ہوسکا مگر ان کی جلائی ہوئی آزادی کی شمع کے کروڑوں پروانے آج بھی موجود ہیں جو ان کے اس خواب کو پورا کرکے دکھائیں گے ، یہ ان کی تحریک کا ثمر ہے کہ وادی کے چار لاکھ سے زائد جوانوں نے اپنا خون اس تحریک کو دیا ، سرینگر قبرستان میں مدفون یہ شہداءآزادی کے شہید ہیں اور ان کی دی ہوئی قربانی انشاءاللہ جلد یا بدیر رنگ لائے گی اور مقبوضہ کشمیر آزاد ہوکر رہے گااور بھارت کو حق خودارادیت ہر حال میں دینا پڑے گا، جس قوم میں برہان وانی ، مقبول بٹ، یاسین ملک ، میر واعظ عمر فاروق جیسے بیٹے زندہ سلامت ہوں دنیا کی کوئی قوم نہ تو اسے غلام رکھ سکتی ہے اور نہ ہی اس سے پیدائشی اور فطری حق یعنی آزادی چھین سکتی ہے ، آج ہم ان سطور کے ذریعے تحریک کے آزادی کے اس عظیم مجاہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔