تلخ ماضی کو دہرانا مناسب تو نہیں لگتا لیکن ماضی سے سبق سیکھنا اور مشکلات و مسائل کو سلجھانا بھی تو مستقبل کے فیصلے کرنے اور آگے بڑھنے کےلئے ضروری ہوتا ہے ۔ اپنی عدلیہ کی تاریخ کسی طور پہ بھی مثالی نہیں رہی ہے بلکہ نرالی رہی ہے جس میں آمروں کو قانون و آئین کو پامال کرنے سے روکنے کی بجائے جواز و انداز مہیا کیے جاتے تھے ۔ ہر دلعزیز عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہمارے قاضیوںا ور کرتا دھرتاو¿ں و ناخداو¿ں نے نہ صرف عدالتی تاریخ بلکہ تاریخ پاکستان کی چٹی چادر پر ایک بدنما اور سیاہ داغ لگایاجسے پوری دنیا نے دیکھا اور اس کی شدید مذمت بھی کی ۔ دنیا آج بھی بھٹو کا نام لیتی ہے اور مثالیں دیتی ہے کیونکہ بھٹو نے موت تو قبول کر لی لیکن آج کے ان شریفوں ایسی سیاست نہیں کی ، ایک شخص جو اس وقت امیر المومنین بنا بیٹھا تھا بھٹو نے ان شعبدہ بازوں کی طرح وقت کے فوجی آمر کی ملوکیت و آمریت کو تسلیم نہیں کیا اور ڈٹ گیا، حسین ؓ کے انکار کی طرح ، بلا شبہ بھٹو نے غریب عوام کو ایک راستہ دکھا ڈالا اور سوچ دے دی پوری پاکستانی قوم کو ۔ میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ :
سولی چڑھ کر شیر بھٹو حق کا نعرہ بول گیا
فکر وہ اپنی آفاقی ، سچ میزان پہ تول گیا
اہل پاکستان اور بالخصوص غریب عوام جسٹس قاضی فائز عیسی کی بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی پر خوش ہیں ، پرامید ہیں اور مبارکباد پیش کرتے ہیں لیکن ن لیگ نے ایک وکھری ٹائپ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے آج سے عدل کے ایوانوں میں انصاف کی واپسی ہوگی ، یعنی پہلے جو تھا وہ انصاف نہیں تھا کچھ اور تھا جبکہ اب جو ہوگا وہ واقعی انصاف ہوگا ،یہ جماعت کافی عرصہ سے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو اپنا محسن بنانے کے چکر میں ہے اور میڈیا میں ایسی ویسی باتیں کر کے یہ تاثر دینے کےلئے کوشاں ہے کہ نئے چیف غیر جانبدار نہیں بلکہ ن لیگ کے طرفدارہیں ۔ اس طرز و لیول کے اہم عہدوں پہ فائز شخصیات کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جن سے ان کی ساکھ متاثر ہو بلا شبہ انتہائی نامناسب عمل ہے ۔ نون نواز ایک تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بندیالی بادشاہت پاکستان کی عدالتی تاریخ کا بدترین دور تھا ، نیب قوانین میں ترامیم پارلیمنٹ نے کیں جنہیں تین ججز نے کالعدم قرار دے دیا ، ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک ناانصافی کا دور تھا ، نواز شریف کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کا دور تھا ۔ ایسی بولیاں بول کر اللہ ہی جانے یہ لوگ کس کو خوش کر رہے ہیں ، میرے خیال میں کسی بھی چیف کو ایسے بیانات باتوں کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں ہوتی ہو گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائض عیسٰی کیا ہیں اور کون ہیں ان کا ماضی شاید ہے کہ وہ ایک دبنگ و بے باک جسٹس ہیں جنہوں نے ان کے خلاف بھی ریمارکس اور فیصلے دے ڈالے جن کا نام بھی احتیاط و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے ، میرے پاکستان میں یہ کام ہر کوئی نہیں کوئی ایک ہی کر سکتا ہے جو نہ صرف جسٹس ہو بلکہ قاضی فائز عیسیٰ نام ہونا بھی لازم و ملزوم ہے۔ موصوف سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف دائر ہونے والے ریفرنسز کو بھی بھگت چکے ہیں ۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی جی کے ماضی کا مطالعہ کرنے کے بعد میں پر امید ہوں ، منتظر ہوں اور ملتمس ہوں کہ خدارا عدلیہ کو باوقار بنائیں ، پلیز آپ اپنی محنت و ذہانت سے اور دیانت سے میرے پاکستان کے نظام عدل کو باکمال بلکہ لازوال بنائیں ، اہل و فعال بنائیں خدارا قانون و انصاف کا پرچم بلند رکھیں اسے سب سے سر بلند رکھیں ۔ میں اپنے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سلام پیش کرتا ہوں جن کے فائز ہوتے ہی پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی غریب عوام ، خاص و عام تمام نے براہ راست دیکھی ٹی وی سکرینوں پر ، فل کورٹ کی تشکیل بڑا ہی مشکل اور اہم کام تھا جو وہ کر گزرے ، اپنی اہلیہ محترمہ بیگم سرینا عیسیٰ کو دوران حلف ساتھ کھڑا کرنا اور سیشن جج محترمہ جزیلہ اسلم کو سپریم کورٹ کی پہلی خاتون رجسٹرار تعینات کرنا انتہائی اچھا طرز عمل ہے ۔ماہر قانون دان اکرم شیخ نے کہا کہ چیف جسٹس چاہتے ہیں ایسی عدلیہ قائم ہو جس پر عوام کا اعتماد ہو ، وہ کہتے ہیں ہمیں عوام کے فائدے کےلئے یہاں بٹھایا گیا ہے ۔ انکے عزم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو کیسے چلانا چاہتے ہیں ۔ یہ سبھی باتیں بجا ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، نئے چیف جسٹس کےلیے کئی ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنا اوکھا کام ہے ۔ جسٹس(ر)شائق عثمانی جی کے منہ میں منوں مٹھائیاں اور دیسی گھی شکر جو کہتے ہیں کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ججز کی تقسیم سمیت سب چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ حق بات بولتے ہیں ، سخت مزاج اور ایماندار آدمی ہے ۔ مجھے اپنے چیف جسٹس کی نئی روایت یعنی اردو میں حلف اٹھانا بے حد اچھا لگا لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے ، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔ ماضی میں سپریم کورٹ نفاذ اردو کا فیصلہ دے چکی ہے پلیز آپ اس پر عمل کریں اور کرائیں بھی ، وہ اس طرح کہ نہ صرف سپریم کورٹ کی بلکہ پورے ملک کے تمام اداروں کی تمام تر کارروائی اپنی قومی اور سرکاری زبان اردو میں ہی ہونی چاہیے ،سب چھوڑ دیں انگریزوں کی غلامی اور انگریزی زبان ، آپ اپنی پیاری اور نیاری زبان اردو کو پورے ملک میں امر فرما دیں ، نافذ العمل فرما دیں ۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
کالم
دبنگ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
- by web desk
- ستمبر 22, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 430 Views
- 2 سال ago
