ربیعہ نے جب کہا:”ابو جی! یہ موسم کیسا ہو گیا ہے؟ کبھی اندھیاں، کبھی اولے، کبھی طوفانی بارشیں زمین تھک گئی ہے یا ہم؟”تو میں رک گیا، جیسے وقت لمحہ بھر کو ٹھہر گیا ہو۔یہ سوال کسی چھوٹی بچی کی معصومیت کا نہیں تھا، بلکہ ایک باشعور، بالغ نظر نسل کی طرف سے آنے والی وہ دستک تھی جسے ہم بار بار نظرانداز کرتے آئے ہیں۔ ربیعہ کی بات میں دکھ بھی تھا، سوال بھی، اور ایک اندیشہ بھی کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ یہ ایک ایسی حقیقت کا اظہار تھا جو ہمارے دلوں کو چھو جانی چاہیے تھی، مگر ہم نے اسے بھی معمول کا حصہ سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، وہاں زمین واقعی تھک چکی ہے۔ آسمان ناراض ہے۔ دریا خشک ہو رہے ہیں، ہوائیں بدتمیز ہو چکی ہیں، سورج قریب آ چکا ہے، بارشیں بغاوت پر اتر آئی ہیں یہ سب کچھ یوں نہیں ہو رہا جیسے کوئی اتفاق ہو، بلکہ یہ ہماری صدیوں کی نافرمانی کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جو ہم نے فطرت کیساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے ادا کی ہے۔ یہ ہر سال آنے والے سیلاب، قحط، اور بے وقت کی بارشیں محض موسمی تبدیلیاں نہیں، بلکہ زمین کی چیخیں ہیں، قدرت کا ہم سے گلہ ہے۔ ہم نے اپنی ترقی کی دوڑ میں اس بنیادی حقیقت کو بھلا دیا کہ ہم اس زمین کے مالک نہیں بلکہ محض نگران ہیں۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی کہا کرتے تھے کہ زمین پر خلافت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کے دیے گئے وسائل کی حفاظت کرے، ان میں عدل قائم کرے اور فطرت کیساتھ ہم آہنگی میں جئے”مگر ہم نے تو اس خلافت کو منافع کی ہوس، آسائش کی طلب، اور غفلت کے ملبے تلے دفن کر دیا ہے۔ ہم نے اپنی شارٹ ٹرم خواہشات کیلئے زمین کے لانگ ٹرم مستقبل کو دا ؤپر لگا دیا۔ جنگلات کا بے دریغ کٹا، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں کا زہر آلود فضلہ، اور پانی کا ضیاع یہ سب ہمارے اس منافع خوری اور غفلت کی مثالیں ہیں۔ہمارے شہر، خصوصا اسلام آباد اور پنڈی جیسے مقامات، جو کسی زمانے میں نیچر اور انسان کے حسین امتزاج کی علامت تھے، اب شور، گرد، اور بے ہنگم تعمیرات کا کرب بن چکے ہیں۔ نہ درخت بچے، نہ پرندے، نہ سایہ، نہ خنکی، نہ بہار۔ صرف شیشے، کنکریٹ اور چمکدار دھواں۔کبھی یہ شہر اپنی ہریالی اور خوبصورتی کے لیے مشہور تھے، جہاں ہر صبح پرندوں کا چہچہانا اور شام کو ٹھنڈی ہوائیں دل کو سکون دیتی تھیں۔ آج وہاں صرف مشینوں کا شور، گرد آلود فضا اور بے روح عمارتیں ہیں۔ ہم نے فطرت سے منہ موڑ کر اپنے ہی ہاتھوں اپنے مسکن کو اجاڑ دیا ہے۔ اس کی قیمت ہمارے بچے بیماریوں، سانس کی تکلیفوں، اور ذہنی دبا کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ ہے وہ ‘ترقی’ جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا؟
خرد اور دل و نگاہ کی مسلمانیت
شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا:
"خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل؟
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں”
ہم نے ”خرد”کے علم سے زمین کو مسخر تو کیا، سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بے پناہ طاقت حاصل کی، مگر دل و نگاہ کی مسلمانیت کھو بیٹھے۔ ہم نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار تو کیا، مگر اس کے احکامات، خاص کر فطرت کے ساتھ رحم دلی اور عدل کا معاملہ کرنا، بھلا دیا۔ ہمارا دل اور نگاہ اس حقیقت سے غافل ہو چکے ہیں کہ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور اس کی تخلیق میں ایک حسن اور توازن ہے۔ ہم نے اس توازن کو اپنی بے اعتدالی سے بگاڑ دیا ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ ہم سب کچھ کنٹرول کر سکتے ہیں، جبکہ سچ یہ ہے کہ ہم اللہ کے فضل و کرم کے محتاج ہیں۔عمر خیام کی فکری گہرائی اور ہماری حقیقت عمر خیام نے تو زمانے کے گزرنے پر حیرانی کا اظہار کیا تھا، آج ہم وقت کے گزرنے سے نہیں، وقت کے بگڑنے سے خائف ہیں:
"The Moving Finger writes; and, having writ,
Moves on: nor all thy Piety nor Wit
Shall lure it back to cancel half a Line,
Nor all thy Tears wash out a Word of it.”
لیکن اب جو کچھ لکھا جا رہا ہے، وہ آنسوؤں سے نہیں دھل سکتا۔ یہ سطریں ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں، جو فطرت نے ہمارے لیے لکھ دی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات روز بروز واضح ہوتے جا رہے ہیں، اور ان کو مٹانا ہمارے اختیار میں نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم جتنا نظرانداز کریں گے، اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ہم نے قدرت کیساتھ جو بدعہدی کی ہے، وہ موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں ہمیں قدم قدم پر سزا دے رہی ہے۔ غیر متوقع موسم، شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی، اور بے وقت کی بارشیں یہ سب اسی بدعہدی کے نتائج ہیں۔ یہ محض اتفاقات نہیں، بلکہ ہماری صدیوں کی غفلت اور ہوس کا حاصل ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی نہ سنا، تو نہ نسلیں معاف کریں گی، نہ زمین۔اسلام نے فطرت کیساتھ ہمدردی اور اس کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:”اور زمین میں فساد نہ پھیلا، جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے۔سورة الاعراف یہ آیت واضح طور پر زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرتی ہے، جس میں ماحول کو آلودہ کرنا اور اس کے توازن کو بگاڑنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں کو کاٹنے اور فصلوں کو اجاڑنے سے سختی سے منع فرمایا ہے، حتی کہ حالت جنگ میں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو، تو اگر وہ اسے بو سکتا ہو، تو ضرور بوئے۔(مسند احمد)یہ حدیث شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور یہ بتاتی ہے کہ ماحولیات کی حفاظت کتنی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ:جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کوئی فصل بوتا ہے اور اس میں سے پرندہ، انسان یا کوئی جانور کھاتا ہے، تو وہ اس کیلئے صدقہ ہو جاتا ہے۔ (صحیح بخاری)یہ احادیث ہمیں نہ صرف درخت لگانے کی ترغیب دیتی ہیں بلکہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ فطرت کی حفاظت نیکی کا کام ہے اور اللہ کے ہاں اس کا اجر ہے۔ اسلام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے اور اس پر زمین اور اس کے وسائل کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری محض زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کے اس اہم پہلو کو نظرانداز کر دیا۔ ہم نے صرف عبادات پر زور دیا اور اپنے ارد گرد کے ماحول اور فطرت کے حقوق کو بھلا دیا۔قرآن پاک میں کئی جگہوں پر زمین، آسمان، پہاڑوں، دریاں اور جنگلات کا ذکر ہے، جو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ان نشانیوں کی قدر کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ہم پر واجب ہے۔جنگ کے دوران فصلوں کو اجاڑنے اور درختوں کو کاٹنے سے ممانعت کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام جنگ جیسے مشکل حالات میں بھی ماحولیات کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہے۔ اگر جنگ کی حالت میں بھی فطرت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں، تو پرامن حالات میں درختوں کا بے دریغ کٹا، جنگلات کی تباہی، اور زمین کی آلودگی کیسے جائز ہو سکتی ہے؟حل سادہ ہے، مگر اس کے لیے اخلاص اور ارادہ درکار ہے:ہمیں درختوں سے صلح کرنی ہے، زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہیں اور موجودہ درختوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اس ضمن میں، بلین ٹری سونامی جیسے بڑے پیمانے کے منصوبے، جو سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے شروع کیے اور جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا، انتہائی اہم ہیں۔ یہ ایک ایسا پروگرام تھا جس نے پاکستان میں جنگلات کی بحالی اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے ایک مثال قائم کی۔ کسی بھی حکومت کی طرف سے شروع کیا گیا کوئی بھی اچھا کام، خاص طور پر جب وہ ماحول جیسے اہم شعبے سے متعلق ہو، اسے سراہا جانا چاہیے اور جاری رہنا چاہیے۔ ہمیں پانی کیساتھ دوستی کرنی ہے، پانی کو ضائع کرنے کے بجائے اس کا صحیح استعمال کرنا ہے اور اسکی قدر کرنی ہے۔ ہمیں ہوا کو زہر سے پاک کرنا ہے، فیکٹریوں کے دھویں کو کنٹرول کرنا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنا ہے۔ ہمیں زمین کو مٹی بننے دینا ہے، پلاسٹک اور دیگر آلودگیوں سے اسے پاک کرنا ہے تاکہ یہ دوبارہ زرخیز ہو سکے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کو ماحولیاتی شعور دینا ہے۔ انہیں بتانا ہے کہ یہ زمین اور اسکی تمام نعمتیں اللہ کی امانت ہیں اور ان کی حفاظت ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ یہ اب فیشن نہیں، عقلمندی ہے اور شاید بقا کی آخری امید بھی۔یہ صرف حکومتوں یا بڑی تنظیموں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہم میں سے ہر فرد کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے گھروں سے آغاز کرنا ہو گا۔ پانی اور بجلی کا احتیاط سے استعمال کرنا ہو گا، کوڑا کرکٹ کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگانا ہو گا، اور ہر ممکن حد تک پودے لگانے ہوں گے۔ ایک درخت لگانا محض ایک پودا لگانا نہیں، بلکہ ایک امید بونا ہے، ایک مستقبل تعمیر کرنا ہے۔ربیعہ جیسے سوال صرف ایک فرد کا درد نہیں، یہ پوری نسل کا سوال ہے۔ اگر ہم نے اسے سنا، سمجھا، اور جواب دیا تو شاید ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں، جب بادلوں کا شور، بارش کی تیزیاں اور اندھیاں کا شور ماضی کی یادیںنہ ہوں بلکہ مستقل شکایتیںبن جائیں۔ اس وقت پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔بس دعا یہی ہے کہ:یہ زمیں پھر سے مہربان ہو جائے،یہ ہوائیں کچھ نرم گمان ہو جائیں،اور ہم انسان ہو جائیں۔اور یہ انسان ہونے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے جئیں، اور اللہ کے دیے گئے وسائل کی حفاظت کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہماری بقا فطرت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اور اگر ہم فطرت کو تباہ کریں گے تو خود بھی تباہ ہو جائیں گے۔ آئیے، ہم سب مل کر اس بگاڑ کو درست کرنے کی کوشش کریں اور ایک بہتر، سرسبز، اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھیں۔