Site icon Daily Pakistan

دہشت گردی کی نئی لہر،تدارک کےلئے ازسرنوپلاننگ کی ضرورت

idaria

بلاشبہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ پاک فوج نے بہترین حکمت عملی کے ذریعے اس کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا مگرچندہفتوںسے اس میں ایک بارپھراضافہ دیکھنے میں آرہاہے ۔یقینا یہ ہرپاکستانی کے لئے تشویش کی بات ہے کہ ہزاروں قربانیوں کے بعد امن کی فضاءقائم ہوئی تھی اس کو پھرخطرات لاحق ہونے لگے ہیں۔گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے کاہان میں کلیئرنس آپریشن میں مصروف تھیں کہ بارودی سرنگ کا دھماکا ہو گیا۔شہید ہونیوالوں میں کیپٹن فہد، لانس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر مہران اور سپاہی شمعون شامل ہیں۔ ادھر بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے سمبازا میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا جبکہ ایک سکیورٹی اہلکار شہید ہوا ہے۔ ضلع ژوب کے علاقے سمبازہ میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر شروع کیا گیا آپریشن گزشتہ 96 گھنٹوں سے جاری تھا، اس آپریشن کا مقصد دہشت گردوں کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل چند مشتبہ راستوں کے استعمال سے روکنا تھا جن کے ذریعے خیبر پختونخوا میں داخل ہو کر شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ علاقے کی مسلسل نگرانی کے ذریعے دہشت گردوں کے ایک گروہ کو روکا گیا اور دہشت گردوں کے فرار کے راستے روکنے کے لیے ناکہ بندی کی گئی تو انہوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کر دی، فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا جبکہ دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں حق نواز نامی سکیورٹی اہلکار شہید جبکہ دو زخمی ہوئے ہیں۔فائرنگ کے دوران دہشت گردوں کو سرحد پار موجود ان کے سہولت کاروں کے ذریعے بھی مدد میسر تھی، دیگر عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے سکیورٹی فورس کلیئرنس آپریشن کے دوران کیپٹن فہد اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا، شہدا کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کی، وزیرداخلہ نے شہدا کے لواحقین سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے افسروں اورجوانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، شہدا ہماری قوم کے ماتھے کا جھومر اور فخر ہیں، پاکستان کے عوام ان کے پیچھے کھڑے ہیں، دہشتگردی کا پہلے بھی مقابلہ کیا، اب بھی پوری قوت اور طاقت سے قلع قمع کریں گے۔علاوہ ازیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سکیورٹی فورس کلیئرنس آپریشن کے دوران شہید ہونے والے پاک فوج کے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا، ڈاکٹر عارف علوی نے شہدا کے ورثا سے اظہار تعزیت کیا۔صدرمملکت نے شہدا کی دفاع وطن کیلئے خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سکیورٹی فورسز کی کوششوں کو سراہا۔وزیردفاع خواجہ آصف،سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان سکیورٹی فورسز کلیئرنس آپریشن میں فوجیوں کی شہادت پراظہار افسوس کرتے ہوئے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کیپٹن فہد، لانس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر، مہران، شمعون کی شہادت پر ان کے خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پاک فوج کے افسر اور جوان وطن عزیز اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، وطن عزیز کی حفاظت کرنےوالے قوم کے ہیرو ہیں۔وزیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے دوبارہ منظم ہو کر واپس آگئے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے مختلف واقعات ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ انٹیلی جنس ادارے دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ چکے ہیں، دہشت گردوں کی کمر توڑ دیں گے اور جلد امن و امان قائم کریں گے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ایک بارپھرضرب عضب طرز کی طرح کوئی بڑاآپریشن کیاجائے ۔
بھارتی عدالت کاایک اورمتعصبانہ فیصلہ
بھارت سے کبھی خیرکی توقع نہیں رکھی جاسکتی،ہندوتواحکومت نے ہمیشہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے اب اس کی عدالتیں بھی متعصبانہ فیصلے کررہی ہیں۔ گزشتہ روزبھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے متھرا کی عدالت نے بھگوان کرشنا کی جنم بھومی کا جائزہ لینے کے لیے شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کا حکم دیدیا۔مقامی ہندو تنظیم نے تاریخی شاہی عید گاہ مسجد کو شری کرشنا کی جنم بھومی قرار دیکر مندر بنانے کےلئے 13.37ایکڑ زمین پر ملکیت کا دعویٰ دائر کیا تھا جس پر عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا ۔عدالت نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو 2 جنوری کے بعد شاہی عید گاہ مسجد کا سروے کرنے کا حکم دیا جیسا کہ وارانسی کی تاریخی مسجد گیانواپی میں کیا گیا تھا۔خیال رہے کہ گیانواپی مسجد کے سروے میں ایک پرانا اور ناکارہ فوارا ملا تھا جسے شیولنگ کہہ کر انتہا پسندوں نے مسجد پر قبضے کے لیے ہنگامہ کھڑا کردیا اور شیولنگ ملنے کی جگہ کے حصول کےلئے عدالت سے رجوع کرلیا۔انتہا پسند ہندو بابری مسجد اور گیانواپی مسجد کے بعد اب یوپی کی شاہی عید گاہ مسجد کی جگہ بھی مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔تاریخی شاہی عید گاہ مسجد ریاست اترپردیش میں آگرہ سے تقریباً 50کلومیٹر اور دہلی سے 145 کلومیٹر دور شہر متھرا میں واقع ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بھگوان کرشنا کی جنم بھومی ہے جس پر مغل دور میں قبضہ کرکے مسجد اور عید گاہ تعمیر کی گئی تھی۔یاد رہے کہ اس سے قبل سماعت میں متھرا کی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ عبادت گاہوں سے متعلق معاملات کا دائرہ اختیار نہیں رکھتی جس پر دوبارہ درخواست دائر کی گئی۔اس بار میں درخواست کہا گیا تھا کہ اب چونکہ بابری مسجد کیس کا فیصلہ آچکا ہے اور مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دیا جا چکا ہے اس لیے بھگوان کرشنا کی جنم بھومی یعنی شاہی عید گاہ مسجد پر بھی مندر قائم کیا جائے۔اس جواز کو مانتے ہوئے متھرا عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیدیا۔
آٹے کابحران پھرسراٹھانے لگا
عوام کا بنیادی مسئلہ ہی روٹی ہے وہ بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے ، گزشتہ چارپانچ روز آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جس کاعام آدمی پربراہ راست اثرپڑرہاہے ۔موجودہ حکومت نے بھی سابقہ حکومت کی طرح عوام کو مہنگائی اور بھوک کے تحفے کے اور کچھ نہیں دیا ہے۔ ایسا لگ رہاہے ان کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے ویسے تو ملک بھرمیں آٹے کی عدم دستیابی کامسئلہ بنا ہوا ہے مگربلوچستان کے مختلف علاقوں میں آٹے کی قلت کے باعث بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور آٹے کی 100کلو والی بوری 12 ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے بالائی علاقوں میں 100کلو گرام آٹے کی بوری پر 1500روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد فی بوری 12000روپے کی فروخت ہو رہی ہے۔مارکیٹ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ فلور ملز کے پاس گندم کا محدود اسٹاک موجود ہے جس کے باعث فلور ملز مارکیٹ کو محدود پیمانے پر آٹا دے رہی ہیں، محکمہ خوراک بلوچستان کی جانب سے ملزکو ماہانہ کوٹے کی فراہمی میں تاخیرکی جا رہی ہے۔مارکیٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ملز مالکان بلیک مارکیٹ سے مہنگے داموں گندم خرید رہے ہیں، پنجاب نے آٹے اور گندم کی بین الصوبائی منتقلی پرپابندی لگادی ہے، یہی نہیں توبہ اچکزئی، توبہ کاکڑی، دکی، نوشکی، چاغی اور ژوب میں بھی آٹے کا بحران پیدا ہوگیا ہے جبکہ محکمہ خوراک کو بلوچستان میں آٹے کی یومیہ ضرورت کا ڈیٹامعلوم ہی نہیں۔دوسری جانب محکمہ خوراک کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث گندم خریداری میں صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، پاسکو سے 2 لاکھ بوری گندم خریداری کا معاہدہ ہو چکا ہے، اگلے ہفتے پاسکو سے گندم کی بلوچستان سپلائی شروع ہو جائے گی۔حکومت کو چاہیے کہ وہ آٹے بحران کانوٹس لے ۔

Exit mobile version