کالم

زمان پارک لاہور براستہ مری روڈ راولپنڈی

چلیں مری روڈ راولپنڈی میں قواعد و ضوابط اور طے شدہ شرائط کے مطابق جلسے سے خطاب کرکے عمران خان زمان پارک لاہور کو لوٹ گئے۔میں عمران خان کو اس اعتبار سے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ وہ ابھی تک کا دوسرا وزیراعظم ہے جو راولپنڈی سے زندہ سلامت اپنے آبائی شہر کی طرف لوٹ سکا ہے۔ ورنہ تو اس شہر کی روایت اس معاملے میں ا چھی نہیں رہی ۔عمران خان کو اتنی رعایت ضرور ملی کہ وہ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرکے اسی رات واپس زمان پارک لاہور اپنے آبائی گھر لوٹ جائے۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک ، چھبیس نومبر کی رات ایک ٹوٹے ہوئے دل کی فریاد بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئی۔وہ عمران خان جو جلد الیکشن کی حتمی تاریخ لینے اور وفاق میں ایک کثیر جماعتی حکومت کو منہدم کرنے آیا تھا اور دارالحکومت پر یلغار جس کا نعرہ تھا،یکدم بیٹھ ہی گیا ۔ستم ظریف کاخیال ہے کہ مرضی و منشا کاسپہ سالار نہ ملنے سے دل اور دلداریوں کی توقع دونوںبیک وقت ٹوٹ ہی گئے۔ اگرچہ مایوسی کو کفر بھی کہا گیا ہے لیکن اسی حالت کفر میں عمران خان نے اعلان کر ڈالا کہ چونکہ موجودہ حکومت اکتوبر سے پہلے الیکشن کرانے کا ارادہ نہیں رکھتی ، اس لیے وہ موجودہ نظام کا حصہ رہنے کی بجائے اپنی پارٹی کے زیر اختیار تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس کرپٹ نظام کا حصہ بن کر نہیں رہیں گے۔ ستم ظریف کہتا ہے عمران خان کی یہ بات کہ اگر ہم اسلام آباد گئے تو ملک کا نقصان ہوگا ہی وہ عرفان اور نروان ہے جو عمران خان کی ذات پر منکشف ہو چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چھبیس تاریخ والے جلسے میں عمران خان ایک مشتعل سیاسی لیڈر کی بجائے ایک ایسا گیانی لگ رہا تھا، جس پر یہ بھید کھل چکا ہو کہ؛ دنیا دیکھوں کا گھر ہے، دکھوں کی وجہ خواہشات ہیں اور خواہشات پر قابو پا کر دکھوں کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ ستم ظریف نے چونکہ انٹرمیڈیٹ میں تاریخ کا مضمون پڑھ رکھا ہے اور اسی بنیاد پر وہ خود کو ماہر تاریخ و جغرافیہ سمجھے بیٹھا ہے ۔عمران خان پاکستان کا ایک مقبول اور محبوب ترین کھلاڑی رہا ، لیکن ان کی نظروں میں یہ شائد اس وقت آیا جب ایک کینسر ہسپتال بنانے کی مہم اور عزم میں نہ صرف پاکستانیوں نے بلکہ پوری دنیا نے اس کا ساتھ دیا اور ایک ناممکن ہدف کو ممکن کر دکھایا ۔عمران خان کی اس کامیابی نے انہیں پاکستان کا ایک مقتدر ہیرو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔پھر سب کچھ ہوا، اور ساڑھے تین برس بھی گزر گئے۔بقول ستم ظریف ہمارے ملک میں جب کوئی جمہوری حکومت ساڑھے تین سال کی مدت پوری کر لیتی ہے تو پھر سسٹم کے اطراف و جوانب میں ہلچل شروع ہو جاتی ہے ۔پہلے جھرجھریاں لیتے ہیں ، پھر اپنی کھال کو زور زور سے ہلانا شروع کر دیتے ہیں ۔دھرنوں سے اپنی سیاست کا آغاز کرنےوالے عمران خان نے اقتدار چھن جانے کے بعد اپنی احتجاجی سرگرمیوں کا آغاز پے در پے جلسوں سے کیا ، ان جلسوں کا انجام ایک ایسے لانگ مارچ پر منتج ہوا،جس نے اسلام آباد آکر کاروبار مملکت کو مفلوج کر دینا تھا۔پر عمران خان عمر کے جس حصے میں ہیں، اس میں فوری طور پر حسب منشا نتائج حاصل کر لینا ممکن نہیں ہوتا ۔لہٰذا نہ تو وہ لانگ مارچ کو نتیجہ خیز بنا سکے اور نہ ہی اپنے جملہ مطالبات منواسکے ، نہ جلد انتخابات ، نہ من چاہا سپہ سالار ،کچھ بھی تو نہ ملا۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ بالآخر عمران خان جیسے مستجاب الدعوات سیاستدان کو بھی سچا پیار نہ مل سکا وہ کہتا ہے کہ عمران خان کو وہم رہا کہ اب بھی اچھی خاصی "غیبی طاقتیں” اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں ۔اور یہ کہ اچانک پردہ غیب سے کچھ نہ کچھ خاص ظہور میں آ جائے گا۔اچھا یہ جو غیبی طاقتیں ہوتی ہیں ،ان کی ایک اپنی ہی الگ دنیا ہے ۔یہ ملک کی بساط پر دونوں طرف سے خود ہی کھیلتی ہیں اپنے اس خطاب میں عمران خان نے ترتیب کے ساتھ وہ تمام باتیں دھرائیں ،جو وہ گزشتہ چند ماہ سے اپنے جلسوں میں دھراتے چلے آ رہے ہیں ۔انہوں نے کمال معصومیت سے ہر اس ناکامی کا بار اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال دیا ، جو ان کے زوال کا سبب بنی ۔عمران خان نے چور ہے بھئی چور ہے کا نعرہ لگا کر بلاامتیاز ہر سیاستدان کو خائن اور کرپٹ قرار دے رکھا تھا ۔لیکن اپنے دور اقتدار میں وہ کسی خیانت کار کا جرم ثابت کر کے اسے سزا نہ دلوا سکے۔اب نہایت آزردہ لہجے میں کسی کا نام لینے کی بجائے شکوہ کر رہے ہیں کہ نیب اسٹیبلیشمنٹ کے نیچے تھا۔میں عمران خان کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر نیب اسٹیبلیشمنٹ کے نیچے تھا تو آپ بطور وزیراعظم نیب کے اوپر تھے اور نیب کو ہر طرح سے استعمال بھی کر رہے تھے ۔عمران خان نے انکشاف کیا کہ میں چور پکڑتا تھا تو چور کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ڈیل کرلیتی تھی ۔ نیب والے پوچھنے پر بتاتے تھے کہ کیس تو بالکل تیار ہے مگر ابھی تک حکم نہیں آرہا۔ شرلی بے بنیاد کا موقف ہے کہ چونکہ عمران خان خود دیہاڑی لگانے میں ہمہ تن مصروف تھے ،اس لیے وہ چاہتے تھے کہ عسکری راج دلارے اپنا التفات کم نہ ہونے دیں ۔ اس سے پہلے جنہیں عمران خان میر جعفر ،میر صادق،نیوٹرل اور جانور قرار دیا کرتا تھا ،اب انہیں اثاثے جمع کرنے پر طعن کرنا نہیں بھولے ،انہوں نے کہا کہ جس نے اپنے اثاثوں میں بڑا اضافہ کیا، جس نے عوام کے حقوق پائمال کیے، اس نے ملک کو کیا دیا ہے؟انہوں نے اپنے قتل کی مبینہ مگر ناکام کوشش کرنے والے تین اعلی عہدے داروں کا بھی شکوہ کیا اور کہا کہ وہ تینوں آج بھی اپنے عہدوں پر فائز ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ گیانی عمران خان اپنے نروان کی فراست کو اپنی طاقت بنانے کی کوشش کریں ۔اول تو انہیں اب سیاست سے صحت کا بہانہ کرکے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیئے۔بصورت دیگر انہیں پوری طرح سے سیاستدان بنتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئیے۔ اگر انہیں تیزی کے ساتھ سیاستدان بننا اور بقیہ سیاسی زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے تو پھر انہیں چاہیئے کہ کل ہی لاہور میں موجود آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کریں ، اور دعا اور دوا کےلئے درخواست گزاریں۔اگر گیانی عمران خان یہ ہمت اور جرات کر گزرا تو پھر دنیا دکھوں کا گھر نہیں رہے گی اور نہ دکھوں سے چھٹکارا پانے کےلئے ترک خواہشات کی راہ اپنانی پڑے گی ۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri