آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ آجکل اکثریت بے حسی کی گرفت میں ہے۔ کوئی سنجیدہ واقعہ رونما ہو جائے یا کوئی افسوسناک خبر پڑھنے کو مل جائے ہمیں متاثر نہیں کرتی ہم کسی بھی واقع کو غیر اہم سمجھتے ہوئے اثر قبول نہیں کرتے ےعنی ہماری ذات اِن خبروں اور واقعات کو اہمیت نہیں دیتی سرسری طور پر خبر کو پڑھتے ہیں یا واقع دےکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ بے حسی کا شکار ہے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ تاثیر کے شعبے کیا ہیں۔ غم خوشی عبادت گناہ عام طور پر تاثیر میں شامل ہیں۔ اگر کسی کی فوتگی کی اطلاع مل گئی تو خبرِ غم بن جاتی ہے کوئی نقصان ہو جائے تو غم بن جاتا ہے اور یہ شعبہ جان مال اور توقعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ بڑے زمیندار ہیں کھڑی فصل سیلاب کی نذر ہوگئی تیز آندھی پھلوں کو نقصان پہنچا گئی وہ ضائع ہوگئے ،جسمانی اعضاءمیں شدید تکلیف سے غم پیدا ہو جاتا ہے توقعات کے برعکس واقع رونما ہو جائے تو غم پیدا ہو جاتا ہے۔ ان واقعات کا تجزیہ کریں تو یہ بات کھلتی ہے کہ غم ےا خوشی کسی نہ کسی واقع یا شئے کی وجہ سے رونما ہو تے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی عزیز یا دوست سے بے پناہ توقعات باندھ لیتے ہیں لیکن جب یہ توقع پوری نہیں ہوتی تو پھر وہ غم بننے کا ذریعہ ہو جاتی ہے یعنی میں نے اسے بہت اچھا سمجھا تھا لیکن وہ توقعات پر پورا نہیں اترا، اس طرح غم بن گیا۔ انسان کا غم خوشی سے پیدا ہوتا ہے خوشی روٹھ جائے تو غم بن جاتا ہے آرزو ٹوٹ جائے تو غم بن جاتا ہے اور یہی واقعات دل اور دماغ پر تاثیر پیدا کرتے ہیںایک خوبصورت نظارہ دیکھ کر تاثیر پیدا ہو جاتی ہے جسم کے قواء کے ذریعے تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اچھا خوبصورت چہرہ نظر آ جائے تو تاثیر لئے بغیر رہا نہیں جاتا۔ نغمہ کان کے لیے تاثیر ہے اور برے واقعات کا مشاہدہ بھی تاثیر پیدا کرتے ہیں اللہ کا کلام قرآن مجید جو کہ سرکارِ دو عالمﷺ کے قلب پر نازل ہوا جب وہ الفاظ سرکار ﷺ کی زبان اطہر سے ادا ہوتے ہیں تو وہ قرآن کہلاتا ہے اور بغیر وحی حدیث پاک ہے ۔ وہ بھی وحی ہی ہے کیونکہ آپ ﷺ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ ارشاد نہیں فرماتے آپﷺ کے ارشادات مبارک اللہ کی منظوری سے ہیں جب یہ الفاظ کانوں میں سنائی دیتے ہیں تو تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ اسطرح سوچیں کہ کلام الہیٰ سرکارﷺ تک پہنچا پھر آپ ﷺ کی زبان اطہر سے ادا ہوا تو آج میں بھی اسکا قاری ہوں توپھر کتنا بڑا کرم محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی قرآن پڑھتا ہوں اور سامع بھی ہوں قرآن تاثیر دے گا ۔ کانوں کا بہترین فنکشن یہی ہے کہ سب سے اچھی بات سنی جائے اور وہ اللہ کریم کی بات ہے جو بہترین کلام ہے اس طرح مشاہدے کے لیے سب سے اچھے مقامات اللہ کے حوالے سے ہیں، مثلاًحرم شریف اور حضورﷺ کا آستانہ عالیہ، بزرگوں کے مزارات اور انکے آستانے جب ان حوالوں سے کوئی مقام ہے تو وہ نیکی کا زریعہ ہے ۔ لیکن اگر نگاہ غیر مناسب مقامات کی طرف اٹھتی ہے تو وہ بری تاثیر پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ نیک خیالات اس وقت پیدا ہو سکتے ہیں جب نگاہ مطہر اور پاک مقامات کی جانب رہے انسان کتنا ہی خود پرست ہو جائے لیکن وہ اللہ کے فضل کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ خیال جب لطیف نہیں ہوتااور طرح طرح کے دیگر خیالات کی ملاوٹ ہو تو اللہ کی طرف جانے کا راستہ آسان نہیں محسوس ہوتا ۔ جب تک خیال پاکیزہ نہیں ہوتا، لطیف نہیں ہوتا اوریہ دشواری ہے۔ اس راہ پر آنے کےلئے نہ صرف سوچ اور خیال کو پاکیزہ کرنا پڑتا ہے بلکہ نگاہ، سماعت اور دیگر اعضاءبھی نیک عمل کی طرف لگانے پڑتے ہیںاور اگر برے مناظر اور خیالات آنے کے خدشات ہوں تو وہاں سے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا اور نگاہ کو اس جانب مبذول نہ کرنے کا عمل ہی بچت کا ذریعہ بنتا ہے ہر قدم پر اچھائی بھی مل سکتی ہے اور برائی بھی یہ انسان کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس طرف کا رخ کیا جائے یہی نیکی اور بدی ثواب اور گناہ کے عوامل ہیںشر سے گریز کرتے ہوئے خیر کی طرف مڑ جانا ہی نیک عمل بن جاتا ہے اور اسکا اجر بھی اللہ پاک کی ذات سے ملتا ہے ۔ اگر قوّتِ ارادہ کمزور ہے تو نہ صرف انسان بھٹکتا ہے بلکہ دعا سے بھی محروم ہو جاتا ہے جسکا مطلب ہے وہ اللہ کے قریب نہیں ہو سکتا دعا مانگنے والا اللہ کی کبریائی کے سامنے سرنگوں ہو کر دعا مانگتا ہے اور اسکا ےقین اس پاک ذات پر ہوتا ہے تو وہ اس کے سامنے عجز اور انکسار کے ساتھ اپنی کم مائےگی کا ااعتراف کرتے ہوئے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ اس کہ ضرورت یا خواہش پوری ہو جائے عام حالات میں انسان بھر پور انداز میں دعا مانگتا ہے اور اللہ کے قریب رہتا ہے۔ اور اپنی دعاوئں کو اللہ کے قریب پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے لیکن سنجیدگی کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔ رمضان شریف کا مہینہ تربیت کا مہینہ ہے جب نماز اور تراویح قرآن پاک کا سننا اور تلاوت کی جاتی ہے زیادہ وقت عبادت اور اللہ کی یاد ہی میں گزرتا ہے ایک پراسس چل پڑتا ہے زندگی کا ایک نیا رخ سامنے آ جاتا ہے سوچ عمل اور جسم فضول قسم کی حرکات میں ملوث نہیں ہوتے اللہ کا خاص احسان ہوتا ہے انسان اللہ کی یاد اور عبادت میں وقت گزارتا ہے اور یہی اصل کمائی ہے دولت کے انبار کچھ فائدہ نہیں دیتے یہ دنیا کی دولت اسی دنیا میں رہ جانی ہے دولت دوسروں کے لیے کمائی جاتی ہے اپنے نصیب میںقلیل سرمایہ ہوتا ہے اس کے بعد امانت دوسروںکو پہنچانے کا وقت آجاتا ہے یہ ماہ صیام تربیت کے بعد خودبینی کی طرف بھی راغب کرتا ہے قرآن اور حدیث کا پڑھنا اور سننا زندگی پر اثر کرتے ہیں سوچ اور عمل میں تبدیلی پیدا ہونے کے قوی امکانات بنتے ہیں قرآن کا سننا ہی تاثیر کا زریعہ بنتا ہے ۔شوق لگن اور توجہ سے اس پاک کلام کی سماعت ہی زندگی کے اعمال تبدیل کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں برائےوں سے پہلو تہی اور نیکیوں کی طرف توجہ اچھے نصیب کی علامتیں بنتے ہیں دل کی کثافتیں آنسوو¾ں ک ذریعے دھل جاتی ہیں جب دل پاک اور صاف ہوتا ہے تو اثر قبول کرتا ہے شعور بھی بدلتا ہے نیک اعمال سرزد ہوتے ہیںقرآن کا پڑھنا اور سننا انسانی زندگی میں بے پناہ تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں اللہ کا کلام اسکے محبوبﷺ کے ذریعے جو ہم تک پہنچا اس سے تعلق قائم رکھنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے مسلمان گھرانوں میں پیدا کیا سرکارِ دو عالمﷺ کی امّت بنا دیا اپناکلام سرکارﷺ کے ذریعے ہمیں عطا کیا اسکے پڑھنے اور سمجھنے سے ہمارا راستہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی طرف جاتا ہے جو تروتازہ رہنا چاہیے اسمیں غفلت کوتاہی اور لاپرواہی کے عناصر کامیاب نہیں ہونے چاہئیں ۔ اللہ کا بولنا حضورﷺ کے بولنے میں مخفی ہے انکا کلام ہماری سماعتوں اور نظروں میں رہنا چاہیے اس کلام سے تعلق قائم ہو جائے تو زندگی آسان اور کامران ہو جاتی ہے۔ یہ انسان جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں یہ آزمائش بھی ہیں اور کامیابیوں کا زریعہ بھی ۔ باہر کی کائنات اور اپنے اندر کی کائنات امتحان بھی ہے اور آزمائش بھی، ہمیں اپنے باہر کی کائنات بھر پور انداز میں دیکھنے کی فرصت نہیں نہ محسوس کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں پھر اندر کی کائنات پر کیسے غور ہو سکتا ہے ۔ مالکِ ک±ل نے ہمیں کس طرح تخلیق کیا ہے اپنے آپ پر غور کیا جائے تو خالق کی عظمت کا پتہ چلتا ہے دنیا کو اتنا ہی عزیز رکھنا چاہیئے جس سے دل بہل جائے حاصلِ حیات یہ دنیا نہیں بلکہ آخرت ہے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے حصول کےلئے اللہ کی ہدایت کے مطابق حضورﷺ کے نقشِ قدم پر چل کر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ دل اور دماغ متاثر ہوتے ہیں لیکن معاملات زندگی دنیا تک محدود رکھ کر اثرات نہیں ملتے معمولات زندگی کچھ اور پاک باتوں کا بھی تقاضا کرتے ہیں ۔