کالم

سچ بولنے کی ہمت کسی میں نہیں

اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اس ملک کو بیدردی سے نوچاگیا۔اس کی اور قوم کی عزت کوداﺅ پر لگایا گیا۔اپنے ذاتی سکون وآرام کےلئے ملک عزیز کے وقار کو خراب کیاگیا۔کسی نے بھی اسے معاف نہیں کیا الاماشااللہ ،جس کا جتنا زور لگا اس نے اتنا ہی اس پرگہرا وار کیا ۔ ملکی خزانے پر تو ہاتھ صاف کیا ہی ،اس کی شان وشوکت اورعزت ووقار سے بھی کھیلا۔ کرپشن اورلوٹ مار کے باعث ملک کو بہت دور لا پھینکا۔ملک پاکستان کی یہ انتہائی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے جو بھی ملا ،چور ہی ملا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس کو ترقی وخوشحالی دیتاتنزلی کا شکارکیا۔ اسے پاکستان کا مطلب کیا”لاالااللہ“ بنانے کی بجائے” کھادا پیتا راہے پیا“ کا اہل بنایا۔ملک کی بھولی بسری عوام کے حقوق وفرائض پر کوئی توجہ نہ دی مگر اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی اہل ملا بھی تو اسے کام نہیں کرنے دیا گیا،ٹکنے نہیں دیا گیا۔اس ملک کی بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک میں سچ بولنے والے کا ہی ہمیشہ گلا گھونٹا گیا۔ مختلف تکالیف اور ایذا رسانیوں سے گزارا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں چڑھتے سورج کو سلام کرنے والا ہی کامیاب اور سسٹم کو ٹھیک کرنے اور حالات میںبہتری کا خواہشمند ہی ناکام ٹھہرا۔یہاں میڈیا میں ہرآن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال میں ہر آن پلک جھپکتے ہی اپنے انداز ، طورا طوار، خیال اورسوچ ووچار کے دھارے ذاتی مفادات کی خاطر بدلنے والے ”میڈیا پرسن“ کامیاب ٹھہرے مگر حقیقی تصاویر اور سچ کی آواز بننے والے ”صحافی صاحبان“ انتقامی کارروائیوں جیسے واقعات اور ظلم وجبر کے حقدار ٹھہرے۔ماضی میں سیاسی جماعتوں سے سرزد ہونےوالے احتجاجی واقعات کوملکی معیشت کےلئے بڑادھچکاملک و قوم کے مورال کو کم کرنے کی ایک ناپاک جسارت ،ایک بہت بڑاجرم اور حال میں ہی بدلتی سیاسی صورتحال میںاِسے ایک طویل سیاسی جدوجہد کہنے والے صحافتی طوطے ہرآن بدلتی صورتحال میں اینکر پرسن سینئرتجزیہ کار کہلائے اور تمام واقعات کو ماضی ، حال اورمستقبل کے حوالے سے صحیح سمت اور درست رخ دینے والے حال وبے حال کہلائے ۔ وطن عزیز پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں جھوٹ آسان اورسچ بولنامحال ہے۔ جھوٹ تمام تر دلفریبیوں کے ساتھ کامیاب اور سچ تمام تر سچائیوں کے باوجود ناکام۔پاکستان ایسا ملک ہے کہ جہاں آپ کا سچ بولنا آپ کی ہر لحاظ سے موت کا اعلان ہے۔جہاں سچ بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جہاں سچ کی کوئی قدر نہیں ہے۔جہاں سچ بولنے کے بعد خدشہ یہی ستاتا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ہے۔پاکستان میں جھوٹ کی بہت قدر ہے اور سچ بولنے کی سزا کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے اور اگر یہ سچ کسی ادارے کے یا ملکی سسٹم کے متعلقہ ہوتو سولی پر چڑھا دینے کا کام دیتا ہے۔پاکستان میں اگر کوئی کام مشکل ہے تووہ سچ بولنا ہے جو آپ کسی طرح بھی موجودہ پاکستانی سسٹم میںقطعی طور پر بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔وہ سچ چاہے کسی ادارے کے متعلق ہو یا اس کی کارکردگی کے بارے میں یاعمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی سے لے کر شہباز شریف حکومت کے بننے تک ہو، موجودہ سسٹم میں آپ سچ نہیں بول سکتے،سچ نہیںلکھ سکتے،سچ نہیں دکھا سکتے اس لیے کہ موجودہ سسٹم میں حقیقتوں کا سامنا کرنے کی سکت یا برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیںاپنی جگہ ایک حقیقت ہے آپ عمران حکومت کے جانے سے لے کر شہباز حکومت کے آنے تک کی صحیح اور حقیقی صورتحال کی ہی تصویر کھینچ کر دکھا دیں،لگ پتا جائے گاکہ آپ پر بیتتی کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ان وظیفہ خور ،نام نہاد دانشوروں کے بے تکے تجزیوں پر کوئی بات کرکے تو دیکھے جوموجودہ سسٹم میںکچھ کرنے کی پوزیشن میں تو کبھی بھی نہیں رہے ،عمران حکومت کے جانے اور شہباز حکومت کے آنے کی حقیقی وجوہات بھی بتانے سے قاصر ہیں ۔ سابق عمران حکومت گرنے میں امریکن کردار کیا ؟ امریکن سازش کیا؟ سازش ہوئی بھی کہ نہیں؟اگر ہوئی تویہ سازش تھی کہ مداخلت ؟امریکن دھمکی ہونے میں کتنی حقیقت؟کون سچا کون جھوٹا ،کچھ بھی تو بتانے کی پوزیشن میں نہیں، بس وہی کچھ بتایا گیاجس کا حکم ہوا ہے دوسرا کچھ بھی نہیںہے۔بس وہی کچھ سامنے لایا گیا جو روزاول سے پاکستان کا نصیب ہے۔اپنی کوئی رائے تجزیہ اورخیال نہیں،بس دوسروں کا لکھا ہوا ایک سکرپٹ ہے جو ہر جگہ دیکھا، پڑھا، لکھا ، بتایا اور دہرایا جا رہا ہے ۔ بس جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہے جس میں وظیفہ خور ،زرخرید دانشور عقل وفہم سے عاری ہوکر حالات کے خونی دھارے کی لہروں میں اندھے ہوئے سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ ،آنکھ ،کان اورناک بند کیے بہے جارہے ہیںجیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔قرآن پاک کی سورہ البقرہ کی اس آیت کی طرح ” وہ گونگے ، بہرے ، اندھے ہیں،پس واپس نہیں لوٹیں گے“ ۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور پاکستان ایسے جھٹکوں کا عادی ہوچکا ہے اور سچ بولنے کی ہمت سکت اورپوزیشن ہم میں نہیں ہے۔جھوٹ بولنا اور سچ جھٹلانا ہی مملکت پاکستان کی قسمت میںلکھا ہے اور یہ سلسلہ شروع سے لیکر اب تلک جاری وساری ہے اور اس طرف سے ہاتھ کھینچنے کی طرف کوئی بات نہیں کرتاہے۔ قرضے کا مزید حصول اب کے بار بھی کتنا ضروری ہے گاہے بگائے ہر لمحہ ہر وقت اس طرف ہی اشارہ ملتا ہے بس ہر طرف جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی ایک مہم جاری ہے ۔خدااِس ارض وطن پاکستان کی خیر کرے ،اِس پرکیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri