Site icon Daily Pakistan

سیاستدانوں کوتحمل کامظاہرہ کرناچاہیے

idaria

ملک اس وقت اپنی تاریخ کے دور کے سب سے مشکل ترین معاشی بحران سے گزررہاہے مگر سیاستدانوں کے مابین میوزیکل چیئرگیم جاری ہے ۔ان سیاستدانوں کو ملکی سالمیت اورملکی معیشت کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ یہ ہرقیمت پر اقتدار کاحصول چاہتے ہیں اوراس میں سرفہرست پاکستان تحریک انصاف ہے کہ جس نے ملک کو درپیش سنگین معاشی مسائل کو دیکھنے کے باوجود نہ صرف قومی اسمبلیوں سے استعفے دیدیئے بلکہ پنجاب اورخیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کردیا۔حالانکہ اس وقت ملکی معاشی حالات اس بات کے متحمل نہ تھے کہ نئے عام انتخابات کرائے جاتے مگر تحریک انصاف نے حکومت کوناکام بنانے اس پراپناسیاسی دباﺅبڑھانے اوردوبارہ اقتدارمیں آنے کی عجلت میں وقت سے پہلے اسمبلیاں معزول کیں ۔اب اس کامطالبہ ہے کہ خاکم بدحاً ملک ٹوٹتا ہے تو آج ٹوٹ جائے مگرالیکشن ہرقیمت پرکرائے جائیں ۔ اس حوالے سے ذمہ داریاں توالیکشن کمیشن کی ہیںمگر الیکشن کمیشن نے انتخابات کرانے کے لئے اربوں روپے مانگ رکھے ہیں جبکہ قومی خزانے کی حالت نہ گفتہ بہ ہے ۔ملک میں جاری دہشت گردی کی لہرکے باعث افواج پاکستان، رینجرز اورپاکستان پولیس نے بھی الیکشن کے موقع پرحفاظتی انتظامات کی ذمہ داریاں نبھانے سے معذرت کااظہارکیاہے۔چنانچہ اب تحریک انصاف نے صدرمملکت کواستدعاکی ہے کہ وہ الیکشن کروانے کے لئے نئی تاریخ کااعلان کریں حالانکہ آئین پاکستان میں صدرپاکستان کاکرداربڑاواضح ہے اوروہ کسی صورت بھی نئے انتخابا ت کے انعقاد کے لئے تاریخ نہیں دے سکتے اگروہ ایساکرتے ہیں تووہ اپنے اختیارات سے تجاوزکرتے ہوئے غیرآئینی اقدام کے مرتکب ہوںگے مگر پارٹی ہرحال میں انہیں اس اقدام پرمجبورکررہی ہے چنانچہ اس حوالے سے صدرمملکت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کوان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مشاورتی اجلاس کے لئے خط لکھ کربلایاہے مگرتاحال الیکشن کمیشن نے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے معذروری ظاہرکی ہے اورصدر کے لکھے گئے خط کے جواب میں اپناسندیسہ بھی بھجوادیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ گورنر دے سکتا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز کو خط لکھا ۔ دونوں گورنرز نے تاحال الیکشن کے لیے تاریخ نہیں دی۔دونوں صوبوں میں عام انتخابات سے متعلق معاملہ مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں گورنر پنجاب سے مشاورت کا حکم دیا۔الیکشن کمیشن حکام نے گورنر پنجاب سے مشاورت کی، گورنر نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا اپیل دائر کی ہے۔الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا کوئی آئینی و قانونی اختیار نہیں ہے۔الیکشن کمیشن اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داروں سے بخوبی آگاہ ہے۔ خط مے متن کے مطابق الیکشن کمیشن پہلے خط کے جواب میں بھی صدر مملکت کے آفس کو تمام صورتحال سے آگاہ کر چکا۔پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کا معاملہ اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ افسوس سے کہہ رہے کہ الیکشن کمیشن ایوان صدر کو اس مشاورتی عمل میں شامل نہیں کر سکتا۔دوسری جانب ایک انٹرویو میں صدرڈاکٹرعارف علوی نے کہاکہ الیکشن کےلئے حیلے بہانے تلاش کئے جا رہے تھے اس لیے مجھے خط لکھنا پڑا، الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے معاملہ ایک دوسرے پر ڈالا جا رہا ہے، آئین میں سوراخ تلاش کرنے کے بجائے اس کی پاسداری کرنی چاہیے، یہ نہ کریں کہ آئین کی شقوں کو کس طرح سائیڈ پر رکھ کر الیکشن میں تعطل کا اہتمام کیا جائے ۔، یوں لگتا ہے جیسے الیکشن کی تاریخ دینے پر جرمانہ ہو جائے گا، ملک میں اسوقت اتحادی حکومت نہیں بلکہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے کوئی سہارا مل رہا ہے۔ادھر وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہاکہ عارف علوی یاد رکھیں وہ صدر کے عہدے پر 2018 کی سلیکشن کے نتیجے میں قابض ہوئے، عارف علوی اپنی نہیں تو اپنے عہدے کی عزت کا خیال کریں اور عارف علوی صاحب اپنی آئینی اوقات میں رہیں، الیکشن کمیشن کی آئینی حدود میں تجاوز نہ کریں اور سیاست نہ کریں۔ سب ایک دوسرے پر الزامات اور پھر مقدمات بنانے پر لگے ہوئے ہیں، الیکشن کیلئے بھی حیلے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں، ہر کوئی الیکشن کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہا ہے، یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ الیکشن کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ۔ ملک مشکلات میں ہے، ہم کشتی کو سنبھالا دینے میں نہ ماضی سے سیکھا نہ مستقبل کے اعتبار سے سیکھا، حالانکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کی مثبت تجویز
آئی ایم ایف نے پاکستان کے اندر بڑھتی ہوئی غربت ،بیروزگاری اورمہنگائی کوکم کرنے کے لئے ایک نہایت اچھی اورمثبت تجویز دی ہے مگر اس تجویز پرعملدرآمدکیاجانانہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگا کیونکہ اس تجویز میں آئی ایم ایف نے غریب عوام کو سبسڈی دینے اوربالادست طبقات پرٹیکسز بڑھانے کامشورہ دیاہے ۔یہ مشورہ آئی ایم ایف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھا کمانے والوں کو اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں امیر لوگوں کو سبسڈیز سے مستفید نہیں ہونا چاہیے، سبسڈی صرف ان لوگوں کو منتقل کی جائے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہے۔ ایم ڈی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف بالکل واضح ہے کہ صرف غریبوں کو سبسڈی سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے، پاکستان کو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ نہیں بلکہ ملک چلانے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ کرسٹالینا جارجیوا نے مزید کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصان پر دکھ ہوا، سیلاب سے پاکستان کی ایک تہائی آبادی متاثر ہوئی ہے۔
بھارت کی کشمیریوں سے ایک اوروعدہ خلافی
کشمیرکے اندربھارتی غنڈہ گردی کے واقعات آئے روزسامنے آرہے ہیں مگر بھارتی ڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ وہ ہرباراس سے مکررہاہے ۔بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ الحاق اور خود مختار ریاست کا معاہدہ کر کے وعدے کی خلاف ورزی کی، بھارتی حکومت کشمیر سے متعلق بچر پیپرز کو منظر عام پر آنے سے روکنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، معروف برطانوی اخبار گارڈین نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کا گھناﺅنا چہرہ بے نقاب کر دیا۔ بچر پیپرز بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اور اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل روئے بچر کے مابین کشمیر اور سیز فائر کے معاملے پر ہونے والی خط و کتابت پر مشتمل ہیں، 1952 میں نہرو نے بھارتی لوک سبھا میں بیان دیا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری خود کریں گے، ہم کشمیریوں پر بندوق کی نوک پر اپنی مرضی مسلط نہیں کریں گے۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو پرامن تصفیہ کیلئے خود اقوام متحدہ لے کر گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ غاصبانہ انضمام کر لیا، مودی سرکار کشمیریوں کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافی کو منظر عام پر آنے سے روکنے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے، بھارتی حکومت کشمیر سے متعلق بچر پیپرز کو منظرِ عام پر آنے سے روکنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ اکتوبر 2022 میں نہرو میوزیم کے چیئر پرسن نے بچر پیپرز کو تحقیقاتی مقاصد کیلئے پبلک کرنے کی درخواست کی تھی لیکن بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ بچر پیپرز کو پبلک کرنے سے بھارت کو سیاسی اور خارجی مضمرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ خیال رہے بھارت عمومی طور پر 25سال بعد سرکاری خط و کتابت اور دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کر دیتا ہے، ماضی میں بھی کئی بار صحافتی تنظیموں اور کارکنوں نے بچر پیپرز کو پبلک کرنے کی کوششیں کیں، بچر پیپرز مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی تائید کرتے ہیں۔

Exit mobile version