Site icon Daily Pakistan

سےاسی رہنما اور ےو ٹرن

وطن عزےز مےں عمران خان کے مسند اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ےو ٹرن کا بڑا چرچا رہا جو ہنوز ان کے ساتھ منسلک اور شہرت کا حامل ہے ۔وطن عزےز کی تمام سےاسی جماعتوں کے قائدےن کو اس ےو ٹرن سے مبرا قرار نہےں دےا جا سکتا لےکن جس شدومد سے عمران خان صاحب نے اس کا استعمال کےا وہ انہےں کا خاصہ رہا ۔معزز قارئےن ہر شاہراہ پر ےقےنا کچھ فاصلے پر چوک ضرور ہوتا ہے جو کسی نہ کسی راستے پر جانے کی نشاندہی کرتا ہے ۔چوک کسی بھی زندگی کا چاہے وہ ذاتی ہو ،سےاسی ہو ،رےاستی ہو اےک ٹرننگ پوائنٹ کی طرح ہوتا ہے جس کے بعد نئے نئے راستے آتے ہےں جو ہمےں بہت کچھ سکھاتے ہےں مگر اےسا بھی ہوتا ہے کہ پرانے راستوں کا اختتامےہ بھی بعض اوقات کسی بند گلی مےں ہو جاتا ہے ۔دعا کرنی چاہےے کہ ہر ٹرننگ پوائنٹ کہےں برننگ پوائنٹ ثابت نہ ہو ۔آج ٹرےفک کی تےز رفتاری کے دور مےں اپنی بائےک اور گاڑی پر روزانہ کتنے ہی ےو ٹرن آتے ہےں ۔اگر ےو ٹرن کی بندش نہ ہو تو منزل بہت قرےب ہوتی ہے لےکن آپ کی گاڑی نہےں گزر سکتی ،اس کےلئے اےک آدھ کلو مےٹر مزےد چلنا ہوتا ہے تب کہےں ےو ٹرن آتا ہے ۔ےو ٹرن صرف گاڑےاں ہی نہےں لےتےں ہم انسان بھی ےو ٹرن لےتے ہےں جب کوئی شخص آپ سے وعدہ کرے لےکن اپنی بات اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے ساتھ کرے تو سمجھ لےجےے کہ وہ کسی وقت بھی ےو ٹرن لے سکتا ہے ۔اےسے لوگ ناقابل اعتبار ہوتے ہےں ۔آپ کو کسی وقت بھی دھوکہ دے سکتے ہےں ۔آپ ان کا انتظار کرتے رہتے ہےں اور وہ ےو ٹرن لے کر کہےں اور پہنچ جاتے ہےں ۔عام آدمی کے ےو ٹرن کا نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے لےکن اگر ےہی ےو ٹرن کسی محکمے کا سربراہ ےا کوئی حکمران لے تو گوےا ساری قوم منجمد ہو جاتی ہے اور حےران و سراسےمگی کی حالت مےں خےال کرتی ہے کہ بڑے بڑے جلسوں مےں عوام سے کئے وعدے کےا ہوئے ۔بعد ازاں ےہ لوگ صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہےں کہ ےوٹرن اچھے ہوتے ہےں ۔ان کے خود ساختہ بےانئےے اپنی موت آپ مر جاتے ہےں اور ےہ کہہ کر کہ ےہ سےاسی بےانئےے ہوتے ہےں ،سےاسی بےان کوئی حدےث نہےں ہوتی ،ےہ سےاسی مےدان ہوتا ہے اور سےاسی مےدان مےں اےسے بےانات چلتے رہتے ہےں قوم کو مطمئن کرنے کی تدبےر کی جاتی ہے ۔جن کو انتخابی مہم مےں چور ،ڈاکو ،لٹےرے اور وطن دشمن کہا جاتا ہے ،اقتدار کے حصول کےلئے انہی سے اتحاد کر لےا جاتا ہے ۔سوچنے کی بات ےہ ہے اگر سےاست انہی ” اعمال خصوصی“ کا نام ہے تو وطن عزےز مےں عام شہری کا مسلسل اور مستقل نشانہ مشق بننا واضع طور پر سمجھ مےں آتا ہے کےونکہ اس سادہ لوح کو بھی کسی سےاسی وعدے کو سچ مان کر قبول کرنا ہوتا ہے ،کبھی کسی سےاسی بےان پراےمان لانا ہوتا ہے ۔وطن عزےز مےں اےک مسےحا اٹھتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس ملک کو صرف مےں بچا سکتا ہوں ۔دوسرا کہتا ہے کہ مےں بہتر کام کر سکتا ہوں اور تےسرا کہتا ہے کہ مےں، لےکن پروگرام کسی کے پاس نہےں ہوتا ،ہوم ورک کچھ نہےں ،محنت صفر ،تبدےلی کےا خاک آنی ہے ۔جب اےک حکومت سنبھالتا ہے توتب قلعی کھلتی ہے ۔پھر ہمےں اندازہ ہوتا ہے کہ بچانے ولا کوئی نہےں ،علاج کسی کے پاس نہےں لےکن محسوس اےسا ہوتا ہے کہ ہر جانے والا آنے والے سے بہتر تھا ۔عمران خان نے اپنے اقتدار کے خاتمے سے اب تک اپنی سےاست کی بنےاد جن معاملات کو بناےا اور اپنے کارکنوں کو ان معاملات پر گمراہ کرتے رہے تقرےباً ان سب پر اےک اےک کر کے ےو ٹرن لے چکے ہےں ۔نام نہاد سائفر ،امرےکی سازش ،روس کا دورہ ،کون سی بات رہ گئی ہے جس پر عمران خان نے ےو ٹرن نہےں لےا ۔سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ ان کا ےو ٹرن عجےب تھا جو وطن عزےز کو اقتصادی گڑھے مےں ڈال گےا ۔عمران خان نے مسلسل مہےنوں تک جس مسئلے کو بنےاد بنا کر ملک اور اداروں کے خلاف عوامی جلسوں اور انٹروےوز مےں زہر اگلا لےکن آخر مےں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹروےو دےتے ہوئے ےہ کہہ کر کہ معاملہ ختم ہو چکا ،پاکستان کو دنےا بھر خاص طور پر امرےکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہےےں ،خود ہی غےر ملکی سازش والے بےانےہ کی بساط لپےٹ دی ۔وہ دن کو کچھ اور بات اور رات کو اپنے اسی بےانئےے کی نفی کرتے نظر آتے ۔وہ دن کو اپنی تقرےروں مےں جنہےں مےر جعفر اور مےر صادق قرار دےتے رہے لےکن رات کے اندھےرے مےں ان کے دور کے ان کے ہی وزےر دفاع انہی لوگوں سے ملاقاتےں کرتے رہے ۔عمران خان نے ہمےشہ تحرےک انصاف کی عمارت کو جھوٹ کے کمزور ستونوں پر کھڑا رکھنے کےلئے جھوٹے بےانےوں کا سہارا لےا اور ان کے ےہ تمام بےانئےے اےک اےک کر کے پٹتے رہے ۔عمران خان کے فکروعمل اور قول و فعل کے بارے مےں وثوق کے ساتھ کچھ نہےں کہا جا سکتا اپنے مقصد کے حصول کےلئے وہ کسی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہےں ۔وہ کہہ مکرنےوں کو سےاسی حربہ اور سےاسی رہنما کا ہتھےار قرار دےتے رہے ہےں ۔ےہی وجہ رہی کہ ےو ٹرن کی اصطلاح ان سے ہی خاص منسوب رہی ۔وہ آج اےک بات اور کل دوسری بات کہہ کر شرمندہ نہےں ہوتے بلکہ اسے سےاست کہتے رہے ہےں ۔اگر وہ اےک طرف رےاست مدےنہ کا تسلسل سے ذکر کرتے ہےں اور عمر فاروقؓ اور دےگر اکابرےن کے روشن فکرو نظر عمل کا ذکر کرتے ہےں تو دوسری طرف وہ ناچ گانے کے کلچر کے فروغ مےں بھی تن دہی سے لگے ہوئے ہےں ۔وہ اپنے متضاد بےانات کو ےو ٹرن لےنا کہتے ہےں۔ واصف علی واصف کہا کرتے تھے جےسے موسم بدلنے کا بھی اےک وقت ہوتا ہے ۔ہر عروج کو زوال مقدر ہے ۔اقتدار خواہ ہٹلر کے پاس ہو ،مسولےنی ےا نپولےن کے پاس اس کی ٹرےجڈی ےہ ہے کہ اس کے عہد عروج مےں کسی کو کبھی بھی ےہ خےال نہےں آتا کہ
دل کے درےا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اقتدار کا شہسوار جب ٹھوکر کھا تا ہے تو پستی کا سفر اس قدر تےزی سے کرتا ہے کہ اسے کہےں پاﺅں ٹکانے کا موقع ہی نہےں ملتا ۔اب خان صاحب تنہا رہ گئے ہےں ۔وہ جو ان کے اوپر چھت اور شےلڈ تھی وہ نہےں رہی ،ان قوتوں کا آسرا تھا وہ نہےں رہا ۔
معزز قارئےن غےر واضع آدمی تضادات کے ساتھ جےتا ہے اور اس کے ہاں خود احتسابی کا گزر نہےں ہوتا ۔معاصر سےاست مےں اےسے کردار جو تضادات کے ساتھ زندہ رہتے ہےں ان کے نزدےک سےاست مےں اصل اہمےت اقتدار کو حاصل ہوتی ہے ۔جو لوگ اقتدار تک پہنچنے کےلئے کسی اصول اور ضابطے کا لحاظ نہےں رکھتے ان کے نزدےک اخلاقےات کی اہمےت نہےں ہوتی اور اقتدار ملنے کے بعد بھی ےہ باتےں ان کےلئے اہم نہےں رہتےں ۔دراصل ےہ ےو ٹرن کمزور ،نفس پرست اور بزدلوں کےلئے ہوتا ہے ۔جو رہنما اپنے کہے بےانےے کو بدلتے نہےں وہ ضرور اپنے مقاصد کے حصول مےں کامےاب ہو جاتے ہےں۔راقم کو چےن کے بابائے قوم آنجہانی ماﺅزے تنگ کی اےک لکھی ہوئی کہانی ےاد آ رہی ہے ۔پرانے زمانے مےں چےن کے شمالی علاقے مےں اےک بوڑھا آدمی رہتا تھا ۔اس کے مکان کی سمت جنوب کی طرف تھی ۔اس بوڑھے آدمی کی مشکل ےہ تھی کہ اس کے دروازے کے سامنے دو اونچے پہاڑ کھڑے ہوئے تھے ان پہاڑوں کی وجہ سے سورج کی کرنےں اس کے گھر مےں کبھی نہ پہنچتی تھےں ۔ اےک دن بوڑھے آدمی نے اپنے جوان بےٹوں کو بلاےا اور ان سے کہا کہ آﺅ ہم اس پہاڑ کو کھود کر ےہاں سے ہٹا دےں تا کہ سورج کی کرنےں ہمارے گھر مےں بلا روک ٹوک داخل ہو سکےں ۔ بوڑھے آدمی کے پڑوسی کو اس کا ےہ منصوبہ معلوم ہوا تو اس پر ہنسا ۔اس نے بوڑھے آدمی سے کہا مےں ےہ جانتا تھا کہ تم اےک بےوقوف آدمی ہو لےکن مجھے ےہ گمان نہ تھا کہ تم اتنے زےادہ بے عقل ہو گے ۔آخر ےہ کےسے ممکن ہے کہ تم اپنی کھدائی کے ذرےعے ان اونچے پہاڑوں کو ےہاں سے ہٹا دو ، بوڑھے آدمی نے نہاےت سنجےدگی کیساتھ جواب دےا ”تمہارا کہنا درست ہے لےکن اگر مےں مر گےا تو اس کے بعد مےرے بےٹے اس کو کھودےں گے ، ان کے بعد ان کے بےٹے اور پھر ان کے بعد ان کے بےٹے ،اس طرح کھدائی کا ےہ سلسلہ ہمےشہ جاری رہے گا ۔تم جانتے ہو پہاڑ آئندہ اور زےادہ بڑے نہےں ہو جائےں گے ،ہر مزےد کھدائی ان کے حجم کو کم کرتی رہے گی ۔اس طرح آج کے دن نہےں تو کسی اگلے دن ےہ مصےبت ہمارے گھر کے سامنے سے دور ہو چکی ہو گی ۔

Exit mobile version