گزشتہ سے پیوستہ
بچوں کی تعلیم و تربیت ، خانہ داری کے جملہ امور ، سودا سلف لانے کے سارے معاملات ، رشتہ داروں سے میل جول سبھی کی ذمہ دار اور نگران وہ خود تھیں۔ میری شادی کے بعد انہوں نے اپنے گھر پر ہماری شاندار دعوت کی تھی۔اس پرلطف دعوت کا ذائقہ آج تک زبان پر ہے۔ڈاکٹر صاحب کے پہننے اوڑھنے ، کھانے پینے اور آرام کرنے کا خاص خیال رکھتیں۔کہتی تھیں کہ مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی سے چل پڑے ہیں اور بس اب گھر میں داخل ہونے والے ہیں ۔ اسی حساب سے میں روٹی توے پر ڈال چولہے کی لو ہلکی کر دیتی ہوں ۔جیسے ہی وہ گھر میں قدم رکھتے ہیں تو تازہ پھلکا تیار ہوتا ہے۔کہتی تھیں کہ ڈاکٹر صاحب کو تازہ روٹی پسند ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شام بھی عموما مصروف گزرتی، ایک تو اسلام آباد کی تقریبات، پھر ڈاکٹر صاحب شاپنگ کے بھی شوقین تھے ۔ایک بار طے ہوا کہ میں شام کو انہیں میلوڈی مارکیٹ میں لارنس پور کے اسٹور پر لے چلوں گا ۔ وہاں تازہ اسٹاک آیا ہوا ہے۔شاپنگ کریں گے۔وہ گرمیوں میں سفاری سوٹ اور سردیوں میں پینٹ کوٹ پہننا پسند کرتے تھے۔کہتے تھے لباس کے معاملے میں لاپرواہی نہیں کرنی چاہیئے، لوگ آپ سے بات کرنے سے پہلے آپ کا پہناوا دیکھ کر آپ کے بارے میں اندازہ قائم کرتے ہیں۔ اس شام ہم میلوڈی مارکیٹ گئے تو انہیں ان کی بیٹی کا فون آیا کہ امی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ انہیں لے کر پمز ہسپتال آئی ہوئی ہیں۔ان کی وہ صاحبزادی خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھی۔ہوا یوں تھا وہ ماں بیٹی بازار جانے کےلئے جی ایٹ کی نیشنل بک فانڈیشن کے سامنے والی ڈبل روڈ کے کنارے کھڑی ہو کر ٹیکسی کا انتظار کر رہی تھیں کہ ایک تیز رفتار ویگن سڑک کنارے کھڑی ان کی والدہ سے ٹکرا کر بھاگ نکلی ۔ محترمہ سڑک کنارے گر گئیں ، چوٹیں آئی تھیں ۔ ہم فوراً ہسپتال پہنچے ، مسز شبلی ہوش میں تھیں ، اور ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر تسلی دینے لگیں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں ،آپ پریشان نہ ہوں ۔ ہم لوگ ابھی گھر چلیں گے ۔ ڈاکٹرز نے مرہم پٹی کر رکھی تھی۔لیکن ان کی ڈاکٹر صاحبزادی مطمئن نہیں تھی۔میرے استفسار پر انہوں نے بتایا تھا کہ اماں کو سر پر چوٹ آئی ہے ، انہوں نے چوٹ لگنے کے بعد قے کر دی تھی ،جو اچھی علامت نہیں ہوتی ۔ہم ابھی ہسپتال سے گھر نہیں جائیں گے بلکہ میں ان کے سارے ٹیسٹ کرواں گی ۔میں اور ڈاکٹر شبلی واپس آگئے۔وہ کچھ روز ہسپتال زیر علاج رہ کر اسی سر کی چوٹ کی وجہ سے وفات پا گئیں۔ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا تھا ،لیکن ڈاکٹر شبلی صاحب اہلیہ کے چلے جانے کے بعد بالکل ٹوٹ پھوٹ گئے تھے ۔ بظاہر ان کی سرگرمیاں اور مصروفیات ویسی کی ویسی ہی رہیں ، لیکن دھیرے دھیرے ان کی شوگر بڑھتی گئی اور یادداشت کم ہوتی گئی۔پھر وہ دن بھی آ گئے جب وہ صرف گھر پر رہتے تھے،ایک ایسا بزرگ ان کے خدمت گار کے طور پر ساتھ رہتا تھا،جسے خود دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ان کی یادداشت میں رخنے پڑ چکے تھے ۔ایک بار میں ان سے ملنے گیا تو کہنے لگے کامران رات والا زلزلہ کتنا خوفناک تھا، کتنی بڑی تباہی ہو گئی ہے ، تم بتاو خیریت رہی۔میں نے ان کے فرزند کی طرف دیکھا ،جس نے ہلکا سا اشارہ کیا اور کہا کہ ابا جی اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ پھر مجھے کہنے لگے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو پہچان نہیں پاتا ، دیکھو کامران میں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔ اب تم بتاﺅ کہ تم نے یونیورسٹی میں جوائینگ دے دی ہے .؟میں نے انکی صحت سلامتی کی دعا کی اور لوٹ آیالیکن دل دکھی ہو گیا تھا۔ مجھے ڈاکٹر تقی عابدی کا ایک جملہ یاد آ گیا ، ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ اگر میری یادداشت چلی جائے لیکن باقی سارا جسم صحت مند ہو ،تو مجھے زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہ ہو گی ۔لیکن اگر میرا سارا جسم معذور ہو جائے اور دماغ کام کر رہا ہو، تو میں ہر صورت زندہ رہنا چاہوں گا۔ یہ سال 1996 کے اس پاس کی بات ہے کہ ڈاکٹر رحیم بخش شاہین اور شاہد کلیم صدیقی میرےگھر کے ٹیرس پر بیٹھے یونیورسٹی میں مشتہر پوسٹوں پر انٹرویوز میں تاخیر پر احتجاجی گلفشانیاں کر رہے تھے۔میں ان دنوں سیکٹر جی نائن فور میں رہتا تھا جبکہ ڈاکٹر شبلی صاحب سیکٹر جی ایٹ میں رہائش پذیر تھے ۔باتوں باتوں میں خیال بنا کہ ڈاکٹر شبلی صاحب کے ہاں چلتے ہیں ۔شاید وہ کچھ کر سکیں یا کوئی خبر پتہ چل جائے۔ ڈاکٹر صدیق شبلی صاحب یونیورسٹی کی ہر اہم بات ،ہر اہم معاملے سے واقف ہوتے تھے۔ بیشتر احباب کا خیال تھا کہ وہ "اندر کی بات” جانتے ہیں ۔ڈاکٹر رحیم بخش شاہین بڑے باوقار اور متحمل مزاج انسان تھے ،وہ متردد تھے اور چاہتے تھے کہ انٹرویوز کے معاملے کو تماشا نہیں بنانا چاہیئے ، جب ہوں گے تو دیکھا جائے گا۔ جہاں اتنا وقت گزر گیا ،یہ بھی سہی ۔پر ان کے ساتھ والے صاحب اس کے سوا کسی اور موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے ، وہ بیرون ملک سے تازہ تازہ پی ایچ ڈی کر کے واپس آئے تھے اور چاہتے تھے کہ شام ہونے سے پہلے پہلے انہیں اگلی پوزیشن پر منتخب کر لیا جائے۔ بہت بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ ان کے پاس کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کی طرف سے اچھی تنخواہ پر جاب کی آفر موجود تھی ، جو کہ بعد میں انہوں نے کر بھی لی ۔ان کے برعکس ڈاکٹر رحیم بخش شاہین صاحب کا موقف یہ تھا کہ ہمیں ایک وقار اور تحمل کے ساتھ انتظار کرنا چاہیئے۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد سب ڈاکٹر شبلی صاحب کے دروازے پر کھڑے تھے ۔ ہم گھنٹی بجا ہی رہے تھے کہ وہاں پروفیسر سجاد شیخ صاحب بھی تشریف لے آئے۔ اسلام آباد کا کوئی صحیح الدماغ استاد ،ادیب ، دانشور یا دانش جو ایسا نہیں تھا جس نے حضرت سجاد شیخ کی عظمت کے قصے مختلف تفصیلات کے ساتھ نہ سن رکھے ہوں ۔ نہایت خوش لباس ،چوکس ، متحرک اور بے چین پروفیسر تھے ۔ڈاکٹر شبلی صاحب بھی نکل آئے تھے اور چاہتے تھے کہ سبھی فی الفور گھر کے اندر ڈرائنگ روم میں چلیں، لیکن حضرت سجاد شیخ صاحب نے اعلان کر دیا تھا کہ اب ہر بات اسی جگہ پر کھڑے ہو کر کی جائے گی ۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی حکم عدولی کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔وہ میرے سوا سبھوں سے واقف تھے،پوچھنے لگے یہ لڑکا کون ہے؟ میرا نام بتایا گیا، پھر پوچھا کرتا کیا ہے؟ اقبالیات کا لیکچرار ہے ۔وہ یہ بات سن کر حیران ہوئے،بولے لگتا تو نہیں ہے ۔اچھا ابھی دیکھ لیتے ہیں ۔نوجوان آپ کا امتحان ہوگا۔ جی ٹھیک ہے۔انہوں نے ایک دو سوال پوچھے،میں ان دنوں ذہنی طور پر سطح زمیں سے بہت بلندی پر رہتا تھا فورا اپنی مرضی کے جوابات پیش کر دیئے۔وہ خوش ہوئے ،مجھے گلے لگا کر میرے دونوں ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے؛ کہا تھا نا یہ اقبالیات کا لگتا نہیں،یہ ٹھیک آدمی ہے ۔یہ امتحان میں پاس ہو گیا ہے ۔میرے دونوں ہمراہی چپ اور سراسیمہ تھے کہ اب کہیں ان کا امتحان شروع نہ ہو جائے۔ پروفیسر سجاد شیخ صاحب حقیقی معنوں میں ایک بے مثال پروفیسر تھے ۔ وہ اور ڈاکٹر شبلی صاحب اواخر عمر خودی سے لے کر بے خودی تک کے جملہ مراحل کے ذاتی طور پر مشاہد رہے تھے۔یقینا اس وقت وہ دونوں باغ بہشت میں اپنی اپنی کلاس کو حیات قبل از موت کے بارے میں پڑھا رہے ہوں گے ۔ ان کے دلچسپ لیکچرز کی وجہ سے آس پڑوس کے مومنین کی حوریں بھی کلاس میں موجود اور متوجہ بیٹھی ہوں گی۔