Site icon Daily Pakistan

شہید باپ کی راج دلاری

بلاول بھٹو نے درست کہا ہے کہ کاش 27 دسمبر ایک عام سا دن ہوتا ہے۔پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں اس دن کی کوئی معنویت نہ ہوتی ، لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ ستائیس دسمبر کی ستم گر شام نے ہماری جمہوری اور عوامی سیاست کی پروقار آواز کو ایک دہشت گرد حملے میں ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔یہ سوچے بغیر کہ جو آوازیں خاموش کر دی جائیں ، وہ تاریخ کے اوراق پر اور عامتہ الناس کے ضمیر میں گونجتی رہتی ہیں ۔یہ بےنظیر بھٹو کا ظرف ہی تھا کہ اس نے اپنی آخری تقریر کا آغاز راولپنڈی شہر کی توصیف اور جمہوریت کی راہ میں کی گئی جدوجہد اور دی گئی قربانیوں کے ذکر سے کیا تھا۔ حالانکہ اسی شہر میں شہید بی بی کے وزیراعظم باپ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر جھولایا گیا تھا، موت سے ڈرنے والے اور ڈر کر سمجھوتے کرنے والے بھی بالآخر،کبھی نہ کبھی مر تو جاتے ہی ہیں، لیکن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تاریخ میں زندہ رہنے کے عزم کا اعلان کرنے والے ، مرتے نہیں، زندہ رہتے ہیں ، ہاں مگر جو شعور نہیں رکھتے وہ ان کی حیات کی واقعیت سے لاعلم رہتے ہیں اور تحقیق کہ لاعلم اور علم والے کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے ۔شہید باپ کے بے رحمانہ عدالتی قتل کا صدمہ اٹھانے والی بےنظیر بھٹو نے تاریخ کا بہت بڑا صبر کیا، جمہوری جدوجہد کو زندہ رکھا ، جمہوریت سے خوفزدہ اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے معاشروں کو محصور رکھنے والی طاقتوں نے بی بی کو اپنی راہ کی حتمی رکاوٹ خیال کرتے ہوئے اپنے راستے سے ہٹانے میں عافیت جانی ۔بی بی پر پہلا ہولناک حملہ کراچی آمد پر ہوا تھا ،جس میں بیسیوں جیالے شہید ہوئے ، لیکن بی بی محفوظ رہیں۔راولپنڈی میں دوسری بڑی کوشش کی گئی ۔شائد لیاقت باغ کی فضا کی جھجھک وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اتر چکی تھی، کہ ایک اور بڑی راہنما کو جان سے جاتے دیکھ کر نہ یہاں کا آسمان ٹوٹا، نہ زمین پھٹی۔ ہاں مگر آج بھی لیاقت باغ میں شہید بی بی کی آخری تقریر کی گونج باقی ہے اور کوئی اہل سماعت ذرا سی توجہ سے اس آواز کو سن سکتا ہے۔جن کی آواز آتی رہے ، جن کا تذکرہ ہوتا رہے ، جن کے راستے پر قدم آباد رہیں، وہ لوگ کہاں مرتے ہیں ، موت تو صرف قاتلوں کو آتی ہے۔وہ چاہے قتل کرنے والے ہوں یا کروانے والے ، ہر دو چاہے اپنے مکر اور فریب سے سزا سے بچ بھی جائیں، پھر بھی مردہ متصور ہوتے ہیں۔ہاں مگر27 دسمبر کی وہ شام بڑی بھاری تھی،جب پاکستان سے آزاد سیاست کے حق کو بری طرح سے چھین لیا گیا محترمہ بے نظیر بھٹو ایک ایسے وطن کی گلیوں پر نثار ہو گئیں کہ جہاں،چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔27دسمبرشام کے وقت،راولپنڈی کے بدقسمت لیاقت باغ کے سامنے،آزادی، اتحاد، مساوات اور جمہوریت کا قتل ہوا تھا۔۔تب قاتل آسودہ اور جمہوریت خاک ھوئی تھی۔پاکستان میں قتل تو ہوتے ہیں پر قاتل نہیں ملتے ۔شہید بی بی کے قاتل اور قتل کرانے والے دونوں مستور ہیں، قتل گاہ یعنی جائے واردات کو محفوظ کرنے کی بجائے فوری طور تیز دھار پانی سے اس طرح دھو دیا گیا جیسے کوئی جلدی میں اپنے خون آلود ہاتھ دھو رہا ہو ۔ہمارا نظام تحقیق و تفتیش اور نظم عدل و انصاف تحقیق، تفتیش ، عدل اور انصاف میں زمان کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر کام کرتا ہے ، سو یہ کام ابھی تک جاری ہے۔لیکن ستائیس دسمبر کی وہ بھاری شام،میں لیاقت باغ کے جلسے میں تو نہیں گیا تھا ، لیکن ٹیلی وژن پر براہ راست جلسے کو سن اور دیکھ رہا تھا اس دور میں الیکٹرونک میڈیا اپنی آزادی کے عروج پر تھا ،جو قدغنیں اور جو پاپندیاں اب رائج ہیں اس دور میں نہیں تھیں،چیختے چلاتے ٹی وی چینلز ہر ہر لمحے کا منظر اور خبر دکھا رہے تھے۔ میں ٹی وی دیکھنے میں مگن تھا، بی بی کی پرجوش تقریر ختم ہو چکی تھی، لوگ جلسہ گاہ سے نکلنا شروع ہو چکے تھے۔بی بی بھی روانہ ہوئیں،اب ٹی وی کو توجہ سے دیکھنے سننے کی شائد ضرورت نہ رہی تھی ۔میں کمرے سے نکلا ہی تھا کہ ٹیلی وژن کی ایک چیختی آواز نے مجھے کھینچ کر واپس بلا لیا، محترمہ کی گاڑی کے پاس ایک دھماکہ ہوا تھا ،ہل چل مچی ہوئی تھی ، شور تھا ، آہ و بکا تھی بم پروف گاڑی میں سوار محترمہ جو نعرے لگاتے مداحوں کو ہاتھ ہلا کر جواب دے رہی تھیں، ایک جھٹکے سے گاڑی کے اندر اپنی سیٹ پر گر گئیں۔سانحہ ہو چکا تھا لیکن یہ طے نہیں تھا کہ محترمہ کو کوئی نقصان ہوا ہے ،یہ طے نہیں ہوا تھا کہ محترمہ دھماکے کے بعد خود گاڑی میں اپنی نشست پر بیٹھ گئی ہیں ، صرف یہ طے ہوا تھا کہ گاڑی کے نزدیک ایک دھماکہ ہوا ہے ،ہلاکتیں ہوئی ہیں، فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی تھیں۔منظر تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا ، مری روڈ کے سول ہسپتال میں بی بی کی شہادت کا اعلان ہوا ،کوئی کان یہ خبر سننے اور کوئی ذہن اس المناک سانحے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ بے اختیار گریہ طاری ہوا ،ساتھ والے کمرے میں بیٹا ویڈیو گیم کھلنے میں مشغول تھا ،اچانک اسکے کانوں نے رونے کی ایک آواز سنی تو گبھرا کر ادھر آیا ، چند ثانیے مجھے دیکھا ، حیرت سے پوچھا پاپا کیا ہوا؟۔پھر خود ہی ٹیلی ویژن کے المناک مناظر دیکھ کر کچھ کچھ سمجھ گیا ،مجھے گلے لگا کر اس ننھے بچے نے حوصلہ دیا ۔میں نے اپنی بے اختیار کیفیت پر قابو پایا، آنکھیں خشک کیں اور بیٹھ گیا کچھ ہی دیر کے بعد وہ سڑک دھونے کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔پھر ساتھ ہی خبریں آنا شروع ہوئیں کہ کراچی میں حالات خراب ہو رہے ہیں،توڑ پھوڑ ،غصہ احتجاج، گاڑیوں کو جلایا جا رہا تھا، پورے پاکستان میں لوگ اداس اور پریشان تھے ،سندھ میں مشتعل بھی تھے ،کیوں نہ ہوتے راولپنڈی سے ایک اور تابوت سندھ روانگی کے لیے تیار تھا،اس اشتعال کو محترمہ کے ستون وفا آصف علی زرداری کے درد میں ڈوبے پاکستان کھپے کے نعرے نے ایک نئی جہت عطا کی۔اور اس اجتماعی الم کو عوامی طاقت کا عنوان بنا دیا ۔شہید بی بی کو پہلی بار اسلام آباد ائرپورٹ پر 1986 میں دیکھا تھا ، وہ لاہور سے آ رہی تھیں۔ایک ہجوم ان کے استقبال کے لیے جمع ہو رہا تھا اور جب و ہ فاتحانہ انداز سے ائرپورٹ سے باہر نکلیں تو انکے ساتھ ساتھ دھیرے قدموں چلتی تاریخ بھی دکھائی دے رہی تھی،اتفاق سے میں پہلی رو میں کھڑا تھا ،انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ، و ہ باوقار انداز سے چلتی ھوئی باہر نکلیں ان کے ساتھ ایک ھجوم تھا استقبال کے لیے بھی بےقرار لوگوں کی منتظر نگاہیں تھیں۔دوسری بار شہید بی بی کو اپنی یونیورسٹی میں دیکھا .یہ ہماری یونیورسٹی کے دانشور وائس چانسلر پروفیسر جاوید اقبال سید کا دور تھا شہید بی بی ھماری یونیورسٹی کے ایک کورس کی طالبہ بنی تھیں، یہ اوپن یونیورسٹی کا بہت بڑا اعزاز ہے .یہ شہر ، جسے کہتے تو اسلام آباد ہیں ،پر ی اصل میں ہے راولپنڈی ہی،تو اسی شہر میں اس بے خوف اور نڈر روح نے اس موت کا تجربہ کیا جو ہر ذی روح کا مقدر ہے ،وہ مرنا نہیں چاہتی تھی،اسی لیے آج تک زندہ ہے۔ لیاقت باغ آج بھی بے نظیر بھٹو کی حیات پرور آواز سے گونج رہا ہے۔اسی شہر میں شہید بی بی کے عظیم باپ کو بے بس اور بے ضمیر لوگوں نے پھانسی پر لٹکایا تھا۔اس نڈر بہادر نے کہا تھا کہ میں تاریخ میں زندہ رھنا چاھتا ہوں ،انسانی تاریخ بزدلوں ، غداروں اور مکاروں کا قبرستان ھے ، جبکہ یہی تاریخ دلاوروں اور بہادروں کا گلستان بھی ہے۔بے نظیر بھٹو اسی عظیم اور آزاد باپ کی راج دلاری تھی۔

Exit mobile version