نیویارک اور کراچی میں ایک چیز کامن ہے وہ یہ کہ جس طرح کراچی میں پاکستان کی ہر جگہ کے لوگ دکھائی دیتے ہیں اسی طرح نیویارک میں بھی دنیا بھر کے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ جتنا عرصہ راقم کا کراچی میں گزارا اتنا ہی عرصہ نیو یارک میں گزرا۔ کراچی کی طرح نیویارک کے سا تھ میری اچھی یادیں وابستہ ہیں اس شہر کے پانچ بارو(اضلاع)ہیں، مین ہٹن بروکلین ، کوین ، برونکس اسٹیٹن اڑ لینڈ۔ سوائے اسٹیٹن آئرلینڈ کے باقی چار باروں میں رہنے کا اتفاق ہوا ۔آخری رہائشی میئر ظہران ممدانی کے علاقے اسٹوریاکوین میں تھی۔ یہ علاقہ مین ہٹن کے قریب ترین ہے۔ ان کے درمیان میں دریا گزرتا ہے جس میں بڑے چھوٹے شپ چلتے دکھائی دیتے ہرہتے یں۔ اگر کبھی بڑا شپ کوگزرتا ہو تو کوین اور مین ہٹن کو ملانے والے پل جو ٹریفک کی چھ چھ لائنوں پر مشتمل ہے۔ یہ پل دو حصوں میں بٹن دبانے سے تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس دوران دونوں اطراف کی ٹریفک رک جاتی ہے۔ جسے دیکھ کر حیرت سے انکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اسٹوریا کوین بارو کے شمال مغربی کونے میں واقع ہے ۔اس کے مغرب میں دریا بہتا ہے ۔اس کو ملانے کیلئے براڈ وے اسٹیشن ٹرین این اور ڈبلیو ٹائم سکوائر تک پہنچنے میں پندرہ سے بیس منٹ لگتے ہیں۔موجودہ جینے والے نیویارک کے میئر بھی اسٹوریاکوین کے رہائشی ہیں۔ جس سال میں نیویارک میں تھا اس وقت میئر روڈی جولیانی (Rudy Giuliani) بھی میئر کے امیدوار ہوا کرتے تھے۔ یہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ یہ بروکلین نیویارک میں ہی پیدا ہونے تھے۔ پہلی بار میٹر الیکشن کا ہارے تھے۔ دوسری بار سپورٹ کے لیے رابطہ کیا تو ان سے سلام دعا ہوئی۔ پھر ان کے الیکشن میں ان کا ساتھ بھی دیا کمپین میں ساتھ دیا انہوں نے 1989: پہلی بار نیویارک سٹی کے میئر کیلئے الیکشن لڑا تھا مگر ہار گئے تھے۔دوبارہ نیویارک الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔پھریہ دو بار مسلسل نیو یارک کے میئر رہے۔ بطور میئر جرائم میں تاریخی کمی دیکھنے کو ملی اس کے بعد ریپبلکن پارٹی کی جانب سے امریکی صدر کے لیے امیدوار بنے مگر ابتدائی مرحلے سے دستبردار ہو گئے۔بعد میں ٹرمپ کے قریبی ساتھی بنے اور انکی انتخابی مہم میں ان کے مشیر رہے۔ اس سال نیویارک میئر کے الیکشن میں ظہران ممدانی مسلم نوجوان الیکشن میں آیا اور چھا گیا۔ ہم سیاست میں اپنے ملک کے حکمرانوں کو روتے ہیں کہ حکمران جماعت کسی دوسرے کو آگے نہیں آنے دیتی۔ ایسا ہی حال اس نیویارک میئر کے الیکشن میں دکھائی دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بطور صدر کوشش کی کہ یہ نوجوان الیکشن نہ جیت سکے۔ اسے تڑیاں بھی لگاتے رہے۔ مگر وہ الیکشن جیتا۔اس کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ جبکہ ان کا مدد مقابل ریپبلکن سے تھا۔یہ جماعت امیروں کی جماعت کہلاتی ہے۔
جس میں الیکشن میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اس جماعت کا امیدوار نیویارک کا گورنر رہ چکا تھا۔ اس کو ظہورن ممدانی کے مقابلے میں لایا گیا لیکن اس نوجوان نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اگر کہا جائے کہ اس سے قبل پاکستان میں بھی پاکستان کے بڑے شہر کراچی کا میئر بھی نوجوان مرتضیٰ وہاب الیکشن جیتا ہے اور مئیر ہے۔ اس نے بھی جیت کر تاریخ رقم کی۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے نیویارک میئر نے بھی روٹی کپڑا کا نعرہ لگا کر کامیاب ہوا ہے۔ اسی نعرہ سے کراچی کا بھی نوجوان بھی میئر بنا ہے ۔نیویارک کا میئر ظہران ممدانی پہلی جنوری دو ہزار چھبیس کو نیویارک میٹر کا عہدہ سنبھالے گا ۔ ظہران ممدانی مسلم برادری سے تعلق رکھتا ہے، ظہورممدانی یوگنڈا کے دارلحکومت میں پیدا ہوا۔ والد محمود ممدانی ساتھ افریکا اور امریکہ میں تعلیمی شعبے سے وابستہ ایک معروف اسکالر ہیں۔ظہران ممدانی نے دوہزار اٹھارہ میں امریکی شہریت حاصل کی ۔ابتدائی طور پر ان کا بچپن یوگاڈا میں گزرا، اسکے بعد خاندان نے جنوبی افریقہ اور پھر امریکہ میں رہائش اختیار کی۔ امریکہ میں ممدانی نیہائی اسکول برونکس میں تعلیم حاصل کی، پھر افریقن اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کی۔ نیویارک ریاست کی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا، اس تجربے کے بعد نیویارک میئر شپ کیلئے میدان میں اترا۔ ان کی سیاسی اور سماجی مصروفیات میں گھریلو قرضوں سے پریشان کم آمدنی والے گھرانوں کی مدد کرنا اور عوامی ٹرانسپورٹ کے شعبے میں تبدیلیاں لانا ہے۔ کرائم کی روک تھام اور صفائی پر توجہ دینے کا ارادہ ہے۔ یہ اپنی سوچ میں کنفیوز نہیں ہے۔ اسے سب معلوم ہے کیسے یہ کام کرنا ہے۔ جیت کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جسکے جواب میں اب ٹرمپ نے نرم لہجہ اور اچھا برتاؤ کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔تقریر کے آغاز میں اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کیا اور کہا آج کی رات ہم نے ایک خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ تمام مشکلات، مخالفتوں اور شکوک کے باوجود نیویارک کے عوام نے امید، انصاف اور تبدیلی کو چن لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ جیت کسی ایک شخص یا پارٹی کی نہیں بلکہ "ہر محنت کش، مہاجر، طالب علم، اور عام شہری کی ہے جو بہتر زندگی کے خواب دیکھتا ہے۔اس موقع پر نہرو کے تاریخی الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا میں آج جواہر لعل نہرو کے الفاظ یاد کرتا ہوں تاریخ میں کبھی کبھی ایسا لمحہ آتا ہے جب قوم پرانے نظام سے نکل کر نئے دور میں داخل ہوتی ہے۔ آج نیویارک کیلئے وہی لمحہ ہے۔ ہم نے پرانے نظام سے نکل کر نئے مستقبل میں قدم رکھا ہے۔ نئی حکومت کا وژن یہ نیا دور صرف وعدوں کا نہیں، بلکہ عمل کا ہوگا۔ ہم ثابت کریں گے کہ حکومت مسائل حل کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے کے لیے۔ کوئی مسئلہ اتنا بڑا نہیں کہ ہم اسے حل نہ کر سکیں اور کوئی آواز اتنی چھوٹی نہیں کہ ہم اسے سن نہ سکیں۔ اقتدار اور انصاف پر دو ٹوک پیغام میں کہاہم اس نظام کو بدلیں گے جس نے طاقت کو چند ہاتھوں میں بند کر دیا ہے۔ اگر کسی آمر کو خوف دلانا ہے، تو وہ تب ہوگا جب ہم اس نظام کو ختم کر دیں جو اسے طاقت دیتا ہے۔ پھر انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے کہامسٹر ٹرمپ چونکہ مجھے پتا ہے آپ دیکھ رہے ہیں تو سن لیجیے آواز اونچی کر لیں، کیونکہ اب تبدیلی کی گونج آ رہی ہے۔مہاجرین کے بارے میں موقف نیویارک ہمیشہ مہاجرین کا شہر رہا ہے۔انکے ہاتھوں سے بنا، ان کی محنت سے چلتا رہا اور آج سے ان کی قیادت میں آگے بڑھے گا میں ایک مہاجر ہوں، اور آج نیویارک کا میئر ہوں۔ یہ ہماری اجتماعی کامیابی ہے۔
آخر میں کہا یہ فتح اختتام نہیں، آغاز ہے۔یہ وعدہ ہے کہ ہم ایک ایسا نیویارک بنائیں گے جہاں کوئی پیچھے نہ رہ جائے، کوئی آواز دبی نہ رہے، اور کوئی خواب ناممکن نہ لگے۔جس جوش خطابت میں یہ باتیں کی ہیں۔ اگر ان پر عمل ہو جاتا ہے تو ظہران ممدانی کا مستقبل تابناک ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ظہران ممدانی کو واشنگٹن کے وائٹس ہاؤس میں بلا کر ملاقات کی ہے۔ اسے یقین دلایا کہ اس کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ دیکھتے ہیں میئر بن جانے کے بعد کیا تبدیلیاں کرتے ہیں۔فی الحال حالات نارمل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ظہران ممدانی نے نوجوانوں میں ہمت حوصلہ دیا ہے کہ ہر چیز حاصل کرنا ممکن ہے۔ ہم بھی اس سے بہتری کی امید رکھتے ہیں کہ نیویارک کے کرائم کو کنٹرول کرے گا۔عام شہری کیلئے اسانیاں پیدا کرے گا، صفائی کا خاص خیال رکھے گا۔
ظہران ممدانی نیویارک سٹی کا پہلا مہاجر نوجوان مسلم مئیر

