Site icon Daily Pakistan

ع،م ،ش،ف،ن،ز سے غریب عوام کاکوئی تعلق نہیں

عوام کاع،م ،ش،ف،ن،ز،سے کوئی تعلق نہیں،کون آرہاہے ، کون جارہا ہے ، کون کیا کہہ رہا ہے ، اسے توغرض ہے صرف دووقت کی سستی روٹی سے،بنیادی سہولیا ت سے،سستی ادویات سے، سستی بجلی،سستاپیٹرول اورسستی گیس سے، لیکن حالات بہت دگرگوں ہیں، گو کہ وزیر اعظم عمران خان دیانتدار ، محب وطن اور نیک شخصیت کے حامل ہیں، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی تقاضا کر رہے ہیں آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ نو کروڑ آبادی سطح غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ چکی ہے ، آٹا ،آلو ،پیاز، سبزی ، گھی ،چینی ،دالیں ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ،گراں فروشی عروج پر ہے ،کوئی پرسان حال نہیں ،کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، ملاوٹ بھی عروج پرہے ، مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں مکس کی جارہی ہیں، نمک میں پائوڈ ر ملایا جارہا ہے ،صاف پانی عنقا ہوچکا ہے ، گلی محلے کے مسائل کا اژدھام ہے ،گندگی کے ڈھیروں کو صاف کرنے والا کوئی نہیں ،پولی تھین بیگوں کے حوالے سے جو فیصلہ آیا اس پر عملدرآمد کہیںبھی نظر نہیںآرہا، یہ وہ بنیادی مسائل ہیں جن کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے ،مگر آکسفورڈ اورہاورڈ جیسے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ان درپیش مسائل سے نابلد ہیں ،کیونکہ جب تک وہ گلی محلے میں نہیں جائیںگے تو انہیں عوام کے معاملات اور درپیش مسائل کا کیونکر علم ہو گا، وزیراعظم پاکستان عمران خان کام کرنے کے خواہاں ہیں، لیکن سول ادارے کام نہیں کررہے اور نہ ہی کپتان کی بات کا اثرلیتے ہیں، یہ انتہائی حیرت اور خوفزدہ بات ہے ، وزیر اعظم کے اقدامات کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری بھی آرہی ہے جس کا واضح ثبوت اسلام آباد میں ایک گز زمین 18لاکھ میں فروخت ہونا ہے ،یہ سب کچھ کپتان ہی کے مرہون منت ہے انہیں اپنی ٹیم کی طرف توجہ دینا ہوگی،آخر صرف ایک کپتان کیا کچھ کرے گا جب کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے ،پوری دنیا اس کے اقدامات کی معترف ہے آج بھی دنیا بھر میں جن لیڈروں نے اقوام متحدہ سے خطاب کیا سب زیادہ دیکھا اور سنا جانے والا ہمارے ملک کا وزیر اعظم عمران خان ہے یہ ہمارے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور امید کی کرن بھی کیونکہ جس انداز ، متانت اور مدلل طریقے سے عمران خان خطاب کرتے ہیں یہ بہت کم لوگوں کا خاصا ہے، بات دراصل یہ ہے کہ بات کرنے والے کی بات پر نہیںلیکن پرواز رکھتی ہے اور جب ساتھ اثر بھی رکھے تو وہ بات باکمال ہو جاتی ہے ،بات ہورہی تھی عوامی مسائل کی جب تک ان کو حل نہیںکیا جائے گا اس وقت تک حالات نہ گفتہ بہ رہیںگے نہ تو کوئی قانون سازی ، آرڈیننس یا حکومتی سیاسی اقدامات کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں وہ صرف اس چیز کے منتظر ہیں کہ جو وعدے وعید کیے گئے تھے ان کو پورا کیا جانا چاہئے ہم یہ نہیںکہتے کہ کپتان کی نیت میں کچھ فرق ہے ان کا سفر تو منزل کی جانب پورے جوش و جذبے کے ساتھ رواں دواں ہے لیکن پھر کچھ رکاوٹیں مسائل پیدا کردیتی ہیں جس کی وجہ سے ووٹر سخت پریشانی کے عالم میں پھنس جاتا ہے بات یہ ہے کہ جب بے روزگاری کا دور دورہ ہو ، رہنے کیلئے چھت میسر نہ ہو ایک گھر چلانے کیلئے بجٹ قابو سے باہر ہوجائے ، بجلی ، گیس کے بلوں کی ادائیگی کرنا محال ہوجائے ، سفر عذاب بن جائے ، تعلیم کا حصول مشکل ہو جائے ، کاروبار تباہ ہو جائے تو پھر عوام کس کا دروازہ کھٹکھٹائے ، ہر طرف آ ہکار ہو ، نقار خانے میں کوئی طوطی کی آواز نہ سننے والا ہو ، جس کو دیکھو اس کے اپنے مفادات ہوں ، سیاست ذات کیلئے ہو ،ملک وقوم کے بارے کسی کی سوچ نہ ہوپھر یہ کہا جائے کہ اب عوام سڑکوں پرنکلے گی ، ہمارا سوال یہ ہے کہ کسمپرسی کے حالات کی ماری ہوئی عوام جو معاشی طور پر پس چکی ہو وہ کیونکر سڑکوں پر نکلے گی ، کیا اپوزیشن وہ کردار ادا کررہی ہے جس کا اس سے تقاضا ہوتا ہے تو جواب نفی میں آتا ہے اتنی لمبی چوڑی بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں مسائل دو ہی ہیں کہ کرپشن کی دولت کیسے کمائی اور کس طرح بیرون ملک بھیجی گئی ، ملکی خزانہ عوام کی امانت ہوتا ہے اور یہ حکمران جو ووٹ کے ذریعے خازن بنتے ہیں وہ اس کے امین ہوتے ہیں لیکن حیف ہے جب امین ہی کی نیت میں فتور آجائے تو پھر عوامی حقوق کا کون پاسدار ہو گا، آج اگر کپتان کرپشن کے خاتمے کی بات کرتا ہے تو اس میں کون سی برائی ہے جس جس نے بھی مال لوٹا ہے ، منی لانڈرنگ کی ہے ، آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے ہیں تو ان کی تفصیلات کیوں نہیں دی جارہی ہیں ، سیاست میں آنے سے قبل ان کے کتنے اثاثے تھے اور جب حکمرانی میں آئے تو ان اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا اس کا حساب دینا ہر سیاستدان کا فرض بنتا ہے ،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع کاروبار ہیں لیکن جب وہ امریکہ کے صدر کی نشست پر متمکن ہوئے تو انہوں نے کوئی کاروبار نہیں کیالیکن اپنے وطن عزیز میں اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے یہ اقتدار میں آتے رہے اُ س اُس وقت میں ان کا کاروبار وسیع سے وسیع ترہوتا رہا، یہ کیسے ممکن ہے کہ جب آپ ایک انتہائی با اختیار عہدے پربیٹھے ہوں اور آپ پر ” عنایات ” نہ ہوں ایسے میں اگر کوئی بھی سیاستدان کاروباری فائدہ اٹھاتا ہے جو کہ اس کی سیاسی حیثیت کے مرہون منت ہو تو اس کو کرپشن نہیںتو پھر اور کیا کہتے ہیں ، لہذا کپتان سے ہم یہ ضرور درخواست کریں گے وہ ایسی قانون سازی بھی کرائیں کہ جب کوئی اقتدار کے زینے پر چڑھ آئے تو اس کے لئے کسی بھی قسم کا کاروبار شجر ممنوعہ ہو تاکہ کسی طرح سے بھی وہ عوامی مفادات کا سودا نہ کرے ، ووٹ لے کر جس مقصد کیلئے عوام نے اس کو ایوان میںبھیجا ہے اس کو حل کرے ، اب ایوان کی حالت دیکھیں تو وہ انتہائی باعث تشویش ہے ، قانون سازی کرنا ، عوامی حقوق کی پاسداری کرنا بعید از قیاس ہے، وہاں تو صرف ہنگامہ آرائی ، واک آئوٹ اور ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی ہوتی ہے ایک قومی اسمبلی وسینیٹ کے اجلاس پر قوم کا کتنا پیسہ لگتا ہے یہ ان سیاستدانوں کو اچھی طرح معلوم ہے لیکن پھر بھی وہ ہی ڈھاک کے تین پات، نہ ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے ۔ ]]>
Exit mobile version