کالم

عدالتی نظام میں اصلاحات ضروری

کسی بھی معاشرے کی بقا اور استحکام قانون کی حکمرانی اور بالادستی پر منحصر ہے قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقا قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقا کی اکائی ہے انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے انسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کےلئے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی ضامن ہے حضرت امام علی کا قول ہے کوئی معاشرہ ظلم کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کی بنیاد پر نہیں قرآن مجید میں بھی قانون کی فراہمی اور انصاف کی اہمیت کے بارے میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے قرآن مجید عدل و انصاف کا ہی حکم دیتا ہے کسی بھی ریاست میں حکومتی معاملات کی انجام دہی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنےوالے تین بڑے ادارے ہوتے ہیں ان میں سے ایک قانون سازی کرنے والا مقننہ ہے دوسرا مجلس قانون ساز (مقننہ)کے مرتب کردہ قوانین کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور انتظام مملکت چلانے والا ادارہ انتظامیہ ہے حکومت کا تیسرا بڑا ادارہ عدلیہ ہے جس کا مقصد ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے حکومت کی اعلی کارکردگی کا دآرومدار اور انحصار نظام عدل پر ہوتا ہے ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان ایک ریاست اور فرد کے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھنا اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا عدلیہ کی حقیقی ذمہ داری ہے انصاف قائم کرنے والی اقوام ہمیشہ سرخرو و بلند رہتی ہے عدالتی نظام میں سقم اور انصاف میں تاخیر کے حوالے سے سابق وزیر خارجہ چیئرمین پیپلز پارٹی کی دو ٹوک باتیں اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی ذمہ داری محض عدلیہ نہیں تفتیشی نظام کا تیز رفتار نہ ہونا وسائل کی کمی رشوت اور کرپشن جیسے عوامل انصاف کی جلد فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں عدل و انصاف کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت اس وقت تک سر سبز رہے گی جب تک اس میں تین خصلتیں باقی رہیں گی ایک یہ کہ جب وہ بات کریں تو سچ بولیں گے دوسرا یہ کہ جب فیصلہ کریں گے تو انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیں گے تیسرا یہ کہ جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو کمزور پر رحم کریں گی اسلام کی روشن تعلیمات کے باوجود آج کا معاشرہ عدل و انصاف کا دامن چھوڑ کر جائز ناجائز خواہشات کی تکمیل میں کوشاں ہے اوریہ صورتحال معاشرے کے زوال کا باعث بن رہی ہے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 کے آخری چھ کے دوران زیر التوا مقدمات میں3.9 فیصد اضافہ ہوا ہے اگرچہ وقت کےساتھ ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے لیکن آج ہماری عدالتوں میں ججوں کی تعداد کم ہے اور مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ججز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے لوگ انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے عمر گنوا دیتے ہیں اگر عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھا دی جائے اور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ عدالت میں انصاف کیلئے آنے والوں کو جلد انصاف مل جائے گا تو اس کے یقینا اچھے نتائج برآمد ہونگے علاوہ ازیں وکلا بھی تاریخیں لینے کیلئے کئی طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں کبھی کسی دوسری عدالت میں پیشی یا کبھی بیرون شہر جانے یا بیماری کا عذر بنا کر تاریخ پر تاریخ لے لی جاتی ہے اس سے انصاف کی فراہمی میں یقینا تاخیر ہوتی ہے حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا انصاف کی تیز تر فراہمی کےلئے آئینی عدالت کے قیام کو نسخہ کیمیا بتانا ایک سیاسی بحث ہے اور اس حوالے سے منتخب ایوان ہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے البتہ موجودہ صورت حال انصاف میں تاخیر کرپشن جانبداری غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام تضادات کا شکار ہے موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر کرپشن جانبداری غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائل کے ذریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت نچلی سطح پر عدالتی نظام کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند نہیں کیا نظام پے در پے ایک متفقہ سمت کا متلاشی رہا اور آئین ہونے کے باوجود اسکا تحفظ قومی کاز اور مقصد نہ بن سکا پاکستان کی فوجداری نظام کے بنیادی ڈھانچے میں دائمی خرابیاں سرایت کر چکی ہیں اور مرض دائمی ہے معیاری ٹرائل ایک خواب بن گیا ہے اور اسں خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قومی سوچ اور قومی اقدامات درکار ہیں عدالتی ٹرائل کو اگر دیکھیں تو سیاست میں گھسے بغیر پاکستان کی چھوٹی سی تاریخ میں کسی نے انصاف ملنے کی تصدیق نہیں کی 1956 سے آج تک جسٹس منیر خان سے اب تک عدالتوں میں شکایت ہی کرتے چلے آرہے ہیں کہ انصاف نہیں ملا نصرت بھٹو ضیا کے مارشل لا پر عدالت عظمی سے انصاف کی بھیک مانگتی رہیں بھٹو کا ٹرائل عدالتی قتل ٹھہرا اور تو اور بے نظیر کے مقدمے میں اعلی عدالتی ججز کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بغض فائلوں کے اوپر تیرتا ہوا نظر آیا نواز شریف عدالتوں سے نالاں تھے رہے اور اب تک ہیں مشکل فیصلے کرنا ہی سیاستدانوں کا کام ہے اتحادی بیٹھ کر لسٹ بنائیں فیصلہ کرکے اٹھیں کام کرکے دکھا دیں مقدمات کو جلد از جلد نمٹنا مقصود ہے تو اس کےلئے محض آئینی عدالت کے قیام یا ججوں کی تعداد بڑھانے سے کام نہیں چلے گا مستقل بنیادوں پر جدید خطوط پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آراستہ امداد لےکر اصلاحات آئینی اور قانونی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں جو کرنا ہونگی عدالتیں بھی اگر یہ چاہتی ہیں کہ ان کے فیصلوں کی عزت و کریم ہو تو عوام کے کیسوں پر جلد فیصلے کریں معنی خیز قانون سازی اور اصلاحات کیلئے تجاویز دیں سیاسی معاملات سے دور رہیں ازخود نوٹس ضرور لیں لیکن متعلقہ ہائی کورٹ بھیجیں تاکہ وہ فیصلہ کریں،سپریم کورٹ اپیل سن سکے انصاف کریں تاکہ تاریخ آپ کے ساتھ انصاف کرسکے معاشرے میں جب تک انصاف اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا۔ معاشرہ بدامنی، بدحالی اور عدم تحفظ کا شکار رہے گا دور جدید سے لیکر آج تک معاشرے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے پروان چڑھے ہیں عدلیہ کے منصفانہ فیصلے ہی معاشرے میں امن و امان یقینی بناسکتے ہیں ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ جو قومیں وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتیں وہ تاریخ کے اوراق سے مٹا دی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ وقت کے مطابق قوانین میں ترامیم کےلئے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کریں اس کے بغیر ہمہ گیر ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے