Site icon Daily Pakistan

عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر

عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر

عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر

تحریر: مسز گل

عشق محبت کی انتہا کی منزل ہے یعنی عشق کی پہلی منزل پسندیدگی پھر پیار و محبت اور اخری منزل عشق ہے اج کل کے دور میں جیسے کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے اسی طرح رشت و محبتوں اور خلوص میں بھی ملاوٹ ہے انسان کو جب کوئی پسند اتا ہے جب وہ بہت لمبے عرصے وقت تک اچھا لگتا رہتا ہے تو وہ محبت میں بدل جاتے ہیں جذبات اور پھر عشق یہ ہے کہ ہم جسے چاہیں وہ ہماری پرواہ نہ کریں خیال نہ کریں لیکن ہم پھر بھی اسے بغیر کسی غرض اور مطلب کہ چاہتے ہیں چاہے بدلے میں پیار کے دو بول تو کیا ایک پیار بھری نگاہ بھی نہ ملے اسے عشق کہتے ہیں پھر ایک وقت اتا ہے کہ جب انسان بدلے میں پیار جاتا ہے انسان کی فطرت ہے کہ اسے چاہے جانا سراہے جانا پسند ہے اور جب جسے ہم چاہیں اور وہ ہمارے لاکھ محبت بھرے جذبات کے بعد بھی موم نہ ہو ہمیں بدلے میں نہ چاہے بلکہ ایک نظر کرم بھی نہ کریں تو انسان ٹوٹ جاتا ہے بکھر جاتا ہے اور پھر یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ میں نے کس پتھر سے دل لگا لیا کہ جس پر میری محبت کا کوئی اثر نہیں ہوتا یا پھر اس کی محبت کا محور ہی کوئی اور ہے پھر انسان یہ ضرور سوچتا ہے کہ جتنی محبت جتنا وقت میں نے اپنے محبوب کو دیا اس سے تھوڑے سے وقت میں میں اگر اپنے رب کو یاد کر لیتا جس نے محبوب بنایا تمام انسان کل کائنات بنائی جس نے دلوں میں محبت ڈالی جس نے یہ جذبہ پیدا کیا جس نے یہ دل دیا تو شاید ہم اسے راضی بھی کر لیتے ہیں اور دونوں جہانوں کے لیے سکون حاصل کر لیتے ہیں پھر دل کہتا ہے کہ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ابھی بھی وقت ہے کہ ان قدر انسانوں کو بھول کر اپنے رب کو یاد کروں صرف پانچ وقت نماز میں ہی اسے یاد کر لوں تو ذہن و دل کے سکون کے ساتھ ساتھ اس کا قرب بھی حاصل ہو جائے گا جب انسان ٹوٹتا ہے یا دھتکارا جاتا ہے اپنے چاہنے والوں سے تب سمیٹنے والی وہی ذات ہوتی ہے ہمارے تمام گناہوں غلطیوں کے باوجود ہمیں چاہتی ہے ہمیں عطا کرتی ہیں ہمیں اسے یاد نہ بھی کریں تو بھی وہ ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازتی ہے اس ذات بابرکت کی نافرمانی بھی کریں تو وہ ہمیں دھت کاٹتی نہیں ہمیں حقیر نہیں سمجھتی ہمیں نوازنا اور چاہنا نہیں چھوڑتی اور انسان جس کو ہم ساری زندگی بھی چاہیں فرمانبرداری کریں اور اپنا اپ تک اس کے نام کر دیں پھر بھی وہ ہمارا نہیں ہوتا ایسے لگتا ہے کہ انسان کو ساری زندگی بھی دے دیں تو بھی وہ کبھی ہمارا نہیں بن سکتا یا ہمیں ہی ناقدر انسان ملے ہیں یا ہمیں ان سے محبت نا قدر انسانوں سے محبت ہوئی ہے جب انسان کسی انسان سے ٹوٹتا ہے یعنی جب اسے بدلے میں محبت کے بدلے محبت نہیں ملتی وہ ایک شخص کو کتنا چاہتا ہے اپنی ذات سے بڑھ کر چاہتا ہے اپنے اپ اپنے باقی سب رشتوں سے بڑھ کر جب اسے چاہتا ہے اس ایک واحد شخص کو اور جب وہ اسے نہ ملے ملنا تو دور ایک نظر کرم ایک دو پیار کے بول بھی نہ بولے تب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کاش میں نے یہ وقت اس انسان کو منانے اور چاہنے میں برباد نہ کیا ہوتا لیکن خیر ابھی بھی وقت نہیں گزرا ہمیں تب بھی سدھر جانا چاہیے اور تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اللہ ہی وہ ذات ہے کہ جو ہمارے لاحق گناہوں کے باوجود بھی ہمیں نوازتی ہے جو ہمارے گناہ ہماری غلطیاں نہیں دیکھتی وہ یہ نہیں دیکھتی کہ ہم تو اسے یاد نہیں کرتے پھر بھی وہ ہمیں عطا کیے جا رہی ہے بے شک کہ ہم اسے پانچ وقت کی نمازوں میں بھی یاد نہیں کرتے نہ ذکر الہی کرتے ہیں نہ ہر وقت اس کی دی ہوئی ازما ازمائشوں پر صبر کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی دی ہوئی نعمتوں پہ ہم شکر بجا لاتے ہیں اس کے باوجود بھی وہ ہمیں نماز دی ہے اس کے باوجود بھی وہ ہم سے ناراض نہیں ہوتی اور ایک انسان ہے کہ جسے ہم چاہ کے بھی تھک جائیں اس کے باوجود بھی وہ ناشکری کے کلمات پڑھتا ہے اور اس کی محبت کے بدلے میں اسے پیار بھرے دو بول بھی نہیں دیکھا بس وہ ذات ہے صرف وہی ذات ہے اللہ تعالی کی جو بے شمار محبت کے لائق ہیں جو ہمیں دے کے بھول جاتی ہے وہ ہم سے یہ توقع نہیں رکھتی کہ یہ میرا شکر بجا لائے گا تمہیں اسے اور نواز دوں گا یہاں یہ میرا شکر بجا نہیں لا رہا تو میں اسے سزا دوں گا وہ ذات ہمیں ہماری غلطیوں کے باوجود بھی دیتی ہے ہماری ناشکری کرنے پر بھی دیتی ہے اس رات کا جتنا بھی ہم شکر ادا کریں وہ کم ہے اللہ تعالی ہم سب کو یہ توفیق عطا کرے کہ ہم عشق مجازی سے عشق حقیقی کے سفر تک پہنچ سکے ہم اپنی زندگی کے حاصل کو پا لیں کیونکہ زندگی کا مقصد تو یہی ہے اور ذات کی تعریف بیان کرنا اس کی عبادت کرنا اس کی ازمائشوں پر صبر کرنا اور اس کی ادا کی گئی کی گئی نعمتوں پر شکر بجا لانا۔

Exit mobile version